آج کی بات

افغانستان پر امریکی ناجائز قبضے کے خلاف دو دہائیوں سے جاری امارت اسلامیہ کی جدوجہد اور مزاحمت کے بعد حملہ آوروں کو یقین ہو گیا ہے کہ وہ افغان جنگ نہیں جیت سکتے۔ افغانستان کو مستقل اڈے کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

اسی لیے مغرور امریکا نے اب امارت کے ساتھ بات چیت کا آپشن اختیار کیا ہے۔ افغانستان کی تقدیر بدلنے کی مؤثر قوت کے طور پر اپنی فوج کے افغانستان سے انخلا کی بات کی ہے۔ امریکا نے اپنے قبضے کے پہلے دن ہی سے افغانستان میں اپنے اہداف تک پہنچنے اور افغان عوام کو ورغلانے کے لیے ایک بے اختیار اور غیرمؤثر نظام قائم کیا تھا۔ اس نظام کے سابق سربراہ حامد کرزئی نے بار بار میڈیا کے سامنے اس کا اعتراف کیا ہے۔

ان دو دہائیوں کے دوران افغانستان سے متعلق تمام چھوٹے بڑے معاملات میں اس نام نہاد نظام کو سائیڈ لائن کر دیا ہے۔ حملہ آوروں نے اسے اپنے مفاد کے لیے صرف ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اب قطر کے دارالحکومت دوحا میں افغانستان سے تمام غیرملکی افواج کے انخلا کے اہم معاملے پر طالبان نمائندوں اور امریکا کے مابین مذاکرات ایک حساس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں۔ امید ہے اس معاہدے سے افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی۔

ان مذاکرات سے کابل انتظامیہ کو دور رکھا گیا ہے۔ امریکی وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے بھی مذاکرات کے حالیہ دور سے اسے آگاہ نہیں کیا ہے۔ کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی کے ترجمان غلام صدیق صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مذاکرات کی تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔

مشہور کہاوت ہے کہ "بے اختیار ہمیشہ محروم رہتا ہے” اس کہاوت کی مصداق کابل انتظامیہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کابل انتظامیہ نے دو دہائیوں کے دوران قابض قوتوں کے مفادات کا تحفظ کیا اور ان کی ہر بات پر لبیک کہا۔ آج اسے اہم معاملات میں نظرانداز کیا گیا ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے