آج کی بات

 

امارت اسلامیہ کی تاریخ میں یہ شاید پہلا موقع ہے کہ جس نے اپنے موقف میں سختی کی بجائے نرمی کو ترجیح دی ہے ، کیوں کہ وہ ملک کے اعلی مفادات اور افغان قوم کے طویل المیے کا خاتمہ اس میں مضمر سمجھتی ہے، اگر یہ امید ناامیدی میں بدل جاتی ہے تو مجاہدین کے پاس صرف ایک راستہ رہ جاتا ہے جو اس سے پہلے انہوں نے اختیار کیا ہوا تھا ۔

قابض قوتوں کے ساتھ مذاکرات ، جیسا کہ امارت اسلامیہ نے ہمیشہ ایک قابل عمل آپشن کے طور پر تجویز کی ہے ، خوش قسمتی سے 18 سال کے بعد امریکہ بھی اس نتیجے پر پہنچا ہے اور بادل نخواستہ جنگ کے بجائے مفاہمت کی راہ پر گامزن ہوا ہے۔ لیکن یہ کہنا مناسب ہے کہ اس کا کردار مذاکراتی عمل سے عدم دلچسپی ظاہر کر رہا ہے، ٹرمپ کا ٹویٹ اس کی واضح مثال ہے ۔

مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے ساتھ ہی امریکی وفد نے پر تشدد کارروائیوں میں کمی لانے کا ایک نیا مطالبہ پیش کر دیا، امارت اسلامیہ نے بھی یہ مطالبہ قبول کرنے کا اعلان کیا اور اب گیند فریق مخالف کی کورٹ میں ہے کہ کیا وہ واقعی اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں یا وہ اس موضوع کو طول دیکر دوسرے مقاصد کی تلاش میں ہیں؟

نشانیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ امریکی فریق تشدد کی کمی کی تعریف کرنے میں اور بھی زیادہ وقت ضائع کرنا چاہتا ہے حالانکہ یہ صرف کابل انتظامیہ کے چھوٹے طبقہ کا مطالبہ ہے جو صرف امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے بطور آپشن استعمال کر رہا ہے ۔

امارت اسلامیہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ افغانستان پر امریکہ کے ناجائز قبضہ ختم کرنے اور ملک میں پرامن زندگی کو یقینی بنانے کے لئے مخلصانہ کوششیں کر رہی ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے جنگ اور امن دونوں محاذوں پر سرگرم عمل ہے، جب تک کہ افغانستان کی سالمیت کو خطرہ رہے گا اس وقت تک ہم کسی ایک نقطہ پر بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی کے دباؤ کے نتیجے میں مقدس جہاد اور مکمل خودمختاری کی راہ میں پیش کی جانے والی قربانیوں کو نظرانداز کیا جائے گا ۔

یہ ضروری ہے کہ امریکی حکام بھی افغان مسئلے کی حقیقت اور افغان عوام کے مطالبات کو سمجھیں اور غیر ضروری اقدامات یا اضافی مطالبات ترک کر دیں اور اس مسئلے کے حل پر توجہ دیں، تاکہ یہ قیمتی موقع اور وقت ضائع نہ ہو، یہ امریکہ اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے