تحریر: احمد فارسی
سن 2019 جس میں افغانستان پر امریکیی جارحیت کے خلاف مسلح مزاحمت، سیاسی اور ثقافتی جدوجہد جاری رہی، حسب سابق اضلاع، فوجی اڈوں اور اہم علاقوں کو فتح کرنے کے علاوہ سیاسی محاذ پر بھی امارت اسلامیہ نے اہم کامیابی حاصل کی، مجاہدین کی سیاسی فتوحات، قابض امریکہ کی جانب سے امارت اسلامیہ کی قیادت کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات سال گزشتہ کی اہم کامیابیوں میں شامل ہیں، علاوہ ازیں قابض امریکی و نیٹو افواج اور افغان فورسز کو بھاری جانی اور مالی نقصان، مسلسل شکست ، کابل انتظامیہ کے اندر شدید اختلافات، پارلیمانی انتخابات میں ناکامی کے بعد صدارتی انتخابات کی مکمل ناکامی اور کرپٹ انتظامیہ کی بوکھلاہٹ اور بدحواسی گزشتہ سال کے اہم واقعات میں شامل ہیں ۔
دوسری جانب مسلح ، سیاسی ، ثقافتی اور معاشرتی شعبوں میں مجاہدین کی پیشرفت کے باعث قابض افواج اور کابل انتظامیہ اتنے بدحواس اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے کہ جنگی جرائم ، بربریت اور بے گناہ شہریوں کے قتل عام کا سلسلہ ماضی سے بھی تیز کر دیا، اسی بناء پر گزشتہ برسوں کے برعکس گزشتہ سال کے دوران سفاک دشمن نے نہتے شہریوں پر تشدد میں کئی گنا اضافہ کر دیا، جس کے باعث عام لوگ دشمن کے مظالم سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، ہم نے گزشتہ سال کے اہم واقعات کا ماہانہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے ۔
جنوری 2019 :۔
یکم جنوری کو مجاہدین نے کابل میں امریکی سفارت خانے اور بگرام فوجی اڈے پر راکٹ حملے کئے جس سے دشمن کو بھاری جانی نقصان ہوا ، اگلے روز پانچویں بریگیڈ پر حملے میں متعدد حملہ آور ہلاک اور زخمی ہوئے۔ 14 جنوری کو غیر ملکی دشمن کے اہم انٹلی جنس دفتر گرین ولیج پر بڑے پیمانے پر حملے کے نتیجے میں یہ مرکز مکمل طور پر تباہ ہوگیا ، جس میں درجنوں قابض اہل کار ہلاک اور زخمی ہوگئے ۔ 12 جنوری کو نیویارک ٹائمز نے رپورٹ شائع کی کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران کابل انتظامیہ کے 139 اہل کار ہلاک ہوئے، 24 جنوری کو اشرف غنی نے بھی اعتراف کیا کہ وہ جب سے برسر اقتدار آئے ہیں یعنی چار سال کے دوران طالبان کے حملوں میں 45 ہزار اہل کار ہلاک ہوئے ہیں، 31 جنوری کو سیگار نے اعلان کیا کہ افغان فورسز کی تعداد میں کمی آرہی ہے اور ان کے جانی نقصان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس ماہ کے دوران صوبہ لوگر کے الیکشن کمیشن کے ایڈمنسٹریٹر ، پلِ خمری شہر کی بٹالین کے کنٹرولر ، صوبہ لغمان میں فرعون کے نام سے مشہور ظالم اربکی کمانڈر ، قندھار میں قومی سلامتی کے مینیجر ، ضلع میوند میں کمانڈر، قندہار کے جج ہلاک ہو گئے ۔
یکم جنوری کو نیویارک ٹائمز نے خبر شائع کی کہ امریکی فوج کے تربیت یافتہ افغان اہل کار عام شہریوں کو حراست میں لے رہے ہیں ۔
جنوری میں قندھار کے ضلع میوند میں دشمن کا ایک فوجی اڈہ تباہ کیا گیا، 5 جنوری کو پل خمری شہر میں سیکیورٹی اڈہ ، 7 جنوری کو صوبہ بادغیس کے دو اضلاع قادس اور آب کمری میں متعدد چوکیاں، 10 جنوری کو صوبہ جوزجان کے ضلع فیض آباد میں متعدد چوکیاں فتح کی گئیں، 20 جنوری کو صوبہ میدان وردگ میں مجاہدین نے دشمن کے فوجی اڈے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں دشمن کے متعدد اہلکار ہلاک اور زخمی ہوگئے ۔
امارت اسلامیہ نے 15 جنوری کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق افغانستان کا تنازع دباو اور فوجی طاقت کے استعمال کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا، 20 جنوری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دوبارہ امن مذاکرات شروع ہوئے، 24 جنوری کو امارت اسلامیہ کی قیادت نے ملا برادر اخوند کو سیاسی امور کے نائب اور قطر کے سیاسی دفتر کے سربراہ مقرر کیا ۔
دوسری جانب 3 جنوری جمعرات کو ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے افغانستان کی جنگ میں ناکامی کی وجہ سے امریکی وزیر دفاع جنرل میٹیس کو عہدے سے برطرف کر دیا، اس کے علاوہ 31 جنوری کو اشرف غنی نے ٹرمپ سے اپیل کی کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا نہ کریں ۔
فروری :۔
10 فروری کو صوبہ روزگان کے مرکز ترین کوٹ میں 12 حملہ آور مارے گئے ، 18 فروری کو صوبہ فراہ کے ضلع پشتون کوٹ میں مجاہدین نے جاسوس طیارہ مار گرایا ۔
2 فروری کو صوبہ ننگرہار کے ضلع خوگیانی میں مجاہدین کے کامیاب حملے میں دشمن کے درجنوں کمانڈوز ہلاک اور زخمی ہوئے ، اس کے علاوہ صوبہ سر پل کے ضلع گوسفندی کے نائب ضلعی سربراہ ، صوبہ میدان وردگ میں کمانڈر، قندھار کے ضلع پنجوائی میں ایک ظالم کمانڈر، صوبہ پروان میں دو کمانڈر مارے گئے ۔
10 فروری کو سر پل کے ضلع سیاد میں تین چوکیاں، فراہ کے ضلع بالا بلوک میں ایک فوجی اڈہ، قندہار کے ضلع معروف، 28 فروری کو صوبہ بلخ کے ضلع چہار بولک میں تین چوکیاں فتح ہوئیں ۔
2 فروری کو روزنامہ انڈیپنڈیٹ نے کابل انتظامیہ کو بے نقاب کرتے ہوئے رپورٹ شائع کی کہ اشرف غنی نے دورہ پاکستان کے دوران جی ایچ کیو میں وعدہ کیا کہ وہ اس ملک کے خفیہ ادارے کے مطالبہ پر اپنے ملک کے سیکیورٹی اداروں میں نامزد اہلکاروں کو برطرف کیا جائے گا ۔
مارچ :۔
21 مارچ کو امارت اسلامیہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ گذشتہ ایک سال کے دوران 387 قابض امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے اور 22 مارچ کو صوبہ قندوز میں چھ مزید امریکی فوجی ہلاک ہوئے ۔ 18 مارچ کو صوبہ پروان کے بگرام میں مجاہدین نے ایک ڈرون طیارہ مار گرایا ۔
مارچ کے مہینہ میں صوبہ قندھار کے رکن پارلیمنٹ ، صوبہ ننگرہار میں ایک کمانڈر ، صوبہ ہرات میں پارلیمنٹ کے لئے نامزد امیدوار ، صوبہ فراہ میں محکمہ بہبود آبادی کے ڈائریکٹر ، صوبہ ہلمند کے ایجوکیشن ڈائریکٹر، ہلمند کے لشکر گاہ میں ظالم کمانڈر ، قندھار پولیس کے سربراہ ، لوگر کے ضلع برکی برک کے کمانڈر ، فاریاب کے ضلع شرین تگاب میں پولیس چیف اور غزنی میں ایک سیکیورٹی ڈسٹرکٹ کمانڈر بھی ہلاک ہوئے ۔
یکم مارچ کو ہلمند کے ضلع شوراب میں امریکی فوجی اڈے باسٹن پر مجاہدین نے ہلاکت خیز حملہ کیا جس میں دشمن کے 397 سے اہل کار ہلاک ہوئے جن میں پانچ پائلٹ اور ہوائی جہاز کے انجینئر سمیت 137 امریکی اہل کار تھے، اس کے علاوہ اس کارروائی میں دشمن کے متعدد ہیلی کاپٹر ، کنٹرول راڈار ، ٹینک اور دیگر کئی سامان مکمل طور پر تباہ کردیئے گئے ، مارچ کے مہینے میں قندوز کے ضلع امام صاحب میں دشمن کا ایک فوجی اڈہ اور دو چوکیاں ، بادغیس کے ضلع بالا مرغاب میں ایک فوجی اڈہ، سمنگان ، فراہ اور بادغیس صوبوں میں ایک مرکز اور 45 چوکیاں، کاپیسا کے ضلع نجراب میں دو فوجی اڈے، صوبہ ہلمند کا ضلع سنگین، صوبہ زابل کا ضلع سیوری اور بدخشان میں ضلع ارغنجواھ پر مجاپدین نے اپنا کنٹرول سنبھال لیا ۔
سیاسی میدان میں 6 مارچ کو واشنگٹن ٹائمز نے خبر شائع کی کہ طالبان نے غیر ملکی افواج کے تین سے پانچ سال تک انخلاء کی تجویز کو مسترد کردیا ، اس کے بعد 9 مارچ بروز ڈی ہیل نے خبر شائع کی کہ طالبان کے ساتھ امریکہ کی بات چیت کامیاب نہیں ہوتی ہے تب بھی شاید ٹرمپ اپنی افواج کی واپس کا اعلان کریں ۔
جمہوریت میں جو کچھ ہوا اس کے تحت 12 مارچ کو پیک رپورٹرز نیوز ایجنسی نے خبر شائع کی کہ کابل انتظامیہ کے فوجی اور سیکیورٹی اداروں میں 80 فیصد خواتین ملازمین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ وزارت صحت عامہ کی اطلاعات کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران سیکڑوں خواتین ایڈز کا شکار ہوگئیں اور مختلف اسپتالوں میں ان کا اندراج کیا گیا ہے ۔
اپریل :۔
8 اپریل کو صوبہ پروان میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے کے مین گیٹ پر فدائی مجاہدین نے امریکی کانوائے کو نشانہ بنایا جس میں دس کے قریب امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ۔
10 اپریل کو صوبہ ہلمند میں ایک ڈرون گر کر تباہ ہوا ۔ 19 اپریل کو صوبہ غزنی کے ضلع ناوا میں دو قابض امریکی فوجی ہلاک ہوگئے ۔
اس کے علاوہ اپریل میں عدلیہ کے بجٹ منیجر ، صوبہ بلخ میں ایئر پورٹ انٹلی جنس ڈائریکٹر ، صوبہ فراہ کے مرکز میں فوجی کمانڈر ، صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں ایک کمانڈر ہلاک ہوگئے ۔
یکم اپریل کو بادغیس کے ضلع بالا مرغاب میں دشمن کے دو مرکز ، 4 اپریل کو اسی ضلع میں 5 چوکیاں، 6 اپریل کو ضلع آب کمری اور بالا مرغاب فتح ہو گئے، 10 اپریل کو قندہار میں دشمن کا ایک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوا ۔
2 اپریل کو امارت اسلامیہ نے الفتح آپریشن کے نام سے موسم بہار کی کارروائی کا اعلان کیا جس کے تحت پہلے ہی دن ملک بھر میں حملہ آوروں اور کابل انتظامیہ کے اہل کاروں پر 100 سے زیادہ چھوٹے اور بڑے حملے کیے گئے ۔
29 اپریل کو کابل میں مشاورتی لویہ جرگہ منعقد ہوا جس میں حکومت کے حامی لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا تاہم کابل انتظامیہ میں شریک چید ایگزیکٹو، سیاسی جماعتوں اور بااثر افراد نے اس سے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور اس کو مسترد کر دیا ۔
3 اپریل کو ٹرمپ نے نیٹو یونین کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کا جنگ غیر ضروری ہے اور اس کے اگلے روز ایک ریٹائرڈ امریکی جنرل نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ امریکی اب افغانستان میں تھک گیا ہے ۔ 7 اپریل کو امریکی کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ اب امریکہ کو افغانستان سے انخلا کا وقت آگیا ہے ۔
مئی :۔
8 مئی کو قابض امریکی فوج نے مشرقی افغانستان میں اپنے ایک اہل کار کی ہلاکت کا اعلان کیا ۔ دوسری طرف صوبہ لغمان کے ضلع الینگار میں پولیس چیف ، صوبہ بغلان میں قومی سلامتی کے نائب سربراہ صوبہ زابل کے ضلع سیوری میں ایک کمانڈر مجاہدین کے حملوں میں ہلاک ہو گئے ۔
اس ماہ کے دوران امارت اسلامیہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران کابل انتظامیہ کے 1500 سے زائد اہل کاروں نے ہتھیار ڈال کر مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہوئے ۔
5 مئی کو بغلان پولیس ہیڈ کوارٹر پر فدائی حملے اور 8 مئی کو کابل شہر میں دشمن کے جاسوس اڈے پر بڑے حملے میں متعدد قابض امریکی اور افغان فوجی ہلاک ہو گئے ۔
10 مئی کو صوبہ بادغیس کے ضلع بالا مرغاب ، 13 مئی کو صوبہ غور کے ضلع چارسد اور 16 مئی کو صوبہ زابل کے ضلع سیوری کے بقیہ علاقوں سے بھی مجاہدین نے دشمن کا صفایا کر دیا ۔
یکم مئی کو قطر میں امارت اسلامیہ اور امریکی مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات کا چھٹا دور شروع ہوا، 11 مئی کو رائٹرز نیوز ایجنسی نے خبر شائع کی کہ پروپیگنڈہ مہم میں طالبان امریکہ اور کابل انتظامیہ سے بھی آگے نکل گئے ہیں ۔
جون :۔
جون کے مہینے کے دوران صوبہ میدان وردگ میں اربکی ملیشیا کے جنرل کمانڈر ، اس صوبے کے ضلع سید آباد میں ایک فوجی پائلٹ ، پکتیکا کے ضلع برمل میں پولیس کمانڈر ، غزنی کے ضلع خوگیانی کے پولیس کمانڈر اور خوست میں گربز کے سابق پولیس کمانڈر ہلاک ہوئے ۔
11 جون کو صوبہ زابل کے ضلع دای چوپان، 12 جون کو صوبہ تخار کے ضلع خواجہ غار، 15 جون کو صوبہ غور کے فیروز کوہ اور دولتیار اضلاع میں 100 دیہات، 28 جون کو غزنی کے ضلع دہ یک، 30 جون کو قندوز کے ضلع امام صاحب اور قندہار کے ضلع معروف پر مجہایدین نے اپنا کنٹرول سنبھال لیا اور ان تمام اضلاع سے دشمن کا قبضہ چھڑا لیا ۔
سیاست کے میدان میں: 18 جون کو امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے ترجمان جناب سہیل شاہین نے کہا کہ امریکیوں نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا پر رضامندی ظاہر کر دی ، 20 جون کو کابل میں نیٹو کے نمائندے نے کہا کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کا وقت آگیا ہے اور 21 جون کو امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکی فوجی افغانستان میں تھک گئے ہیں ۔
25 جون کو امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی پر رضامند ہیں اور بالآخر 29 جون کو دوحہ میں امارت اسلامیہ اور امریکی مذاکراتی ٹیم کے درمیان امن مذاکرات کا ساتواں دور شروع ہوا ۔
دوسری جانب 12 جون کو نیٹو کے ایک ترجمان نے اعتراف کیا کہ افغان عوام اپنے ملک سے غیر ملکی فوجیوں کا انخلا چاہتے ہیں ۔ 19 جون کو کابل انتظامیہ نے قابض قوتوں سے اپیل کی کہ وہ اس کے ساتھ تعاون جاری رکھیں ۔
جمہوریت کی کامیابیوں کے سلسلے میں 2 جون کو کابل کی مزدور انتظامیہ کی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے دعوی کیا کہ کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ 21 جون کو ایک شرمناک واقعہ رونما ہوا جب قابض امریکی فوج اور کابل انتظامیہ نے مل کر داعش کے جنجگو کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مجاہدین کے حملوں سے بچایا اور انہیں محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ۔
جولائی :۔
13 اور 14 جولائی کو صوبہ غزنی میں پانچ امریکی فوجی ہلاک ہو گئے، 24 جولائی کو کابل میں قابض امریکی فوجیوں کا فوجی قافلہ نشانہ بنایا گیا جس میں انٹیلی جنس ادارے کے متعدد اہلکار ہلاک ہوگئے ۔
جولائی میں اشرف غنی کے محافظوں کے کمانڈر، فاریاب میں فائرنگ میں 39 کمانڈو اور صوبہ پکتیا کے ضلع زرمت میں اربکی کمانڈر مارے گئے ۔
یکم جولائی کو کابل میں وزارت دفاع کے لاجسٹک سنٹر اور 7 جولائی کو صوبہ غزنی میں سیکورٹی مرکز پر حملوں میں دشمن کے درجنوں اہل کار ہلاک اور زخمی ہوئے، 16 جولائی کو بادغیس کے ضلع آب کمری میں دشمن کے 39 کمانڈوز مارے گئے، 18 جولائی کو قندھار میں پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا گیا جس میں 100 سے زائد پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ۔
2 جولائی کو صوبہ جوزجان کے ضلع قوشتپہ ، بغلان میں درہ کیان ، 3 جولائی کو صوبہ غور کے ضلع ساغر میں میں اہم علاقہ، 8 جولائی کو بغلان کے پل خمری شہر میں دشمن کا ایک اہم فوجی اڈہ، 12 جولائی کو صوبہ پکتیکا کے خوشامند، 16جولائی کو صوبہ بدخشاں کے ضلع کران ومنجان میں لاجورد سب سے بڑی کان اور 22 جولائی کو ضلع کران ومنجان کو فتح کیا گیا ۔
7 جولائی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں مشترکہ اجلاس ہوا اور اگلے روز مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، اس اجلاس میں شریک افراد نے امارت اسلامیہ کے وفد سے اظہار تشکر کیا اور بیشتر شرکاء نے کہا کہ امارت اسلامیہ کے بارے میں ان کو جو بھی شبہات تھے وہ ختم ہوگئے ہیں ۔
عالمی ادارہ صحت نے 2 جولائی کو ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ چار برس کے دوران دو سو سے زائد بچے ایڈز سے متاثر ہوئے ہیں، 11 جولائی کو بی بی سی نے خبر شائع کی کہ کابل انتظامیہ کے اندر اخلاقی بدعنوانی اور جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
دوسری طرف حملہ آوروں کے راز سے بھی پردہ اٹھایا گیا 3جولائی کو امارت اسلامیہ نے کابل انتظامیہ کی صفوں میں بلیک واٹر کے اجرتی قاتلوں کی موجودگی کی خبر شائع کی، 16 جولائی کو کابل انتظامیہ نے ریاستی سطح پر ایک دارالافتاء کے قیام کا اعلان کیا ۔
22 جولائی کو امریکہ کے صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ چاہیے تو افغانستان کو دنیا کے نقشہ سے ختم کردیں گے اور اس کے لئے دس ملین افغانوں کو ہلاک کریں گے، اور اس کے بعد اشرف غنی کی کرسچن اہلیہ نے اسرائیلی شہریوں کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ۔
اگست :۔
7 اگست کو قندھار کے ضلع ڈنڈ میں قابض امریکی فوجیوں کے قافلے پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں متعدد اہل کار ہلاک اور زخمی ہوئے، 21 اگست کو مزید دو فوجی ہلاک اور 23 اگست کو فاریاب کے ضلع المار میں چار حملہ آور مارے گئے، 24 اگست کو مجاہدین نے قابض امریکی فوج کے سب سے بڑے فوجی اڈے بگرام پر مزائلوں سے حملہ کیا جس میں گیارہ امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے، نیز 31 اگست کو ایک اور امریکی فوجی مجاہدین کے حملے میں ہلاک ہوا ۔
اگست کے دوران صوبہ ہرات کے ضلع زندہ جان کے ضلعی سربراہ ، ضلع فارسی کے گورنر ، لوگر کے ڈسٹرک پولیس چیف ، سمنگان کی صوبائی کونسل کے ممبر ، جوزجان میں اربکی کمانڈر اور صوبہ فراہ کے ضلع پرچمن میں اربکی ملیشیا کے ضلعی سربراہ مارے گئے ۔
یکم اگست کو کابل شہر میں پولیس چوکی پر حملہ کیا گیا جس میں چھ پولیس اہل کار مارے گئے، 5 اگست کو قندھار کے ضلع شاولی کوٹ میں ایک رابطہ کار مجاہد نے فائرنگ کرکے 14 پولیس اہل کاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، 6 اگست کو کابل میں پولیس بھرتی مرکز پر حملہ کیا گیا ۔
10 اگست کو صوبہ زابل کے دو اضلاع دایچوپان اور سیوری، 24 اگست کو صوبہ بلخ کے ضلع نہر شاہی میں دشمن کا فوجی اڈہ، 28 اگست کو تخار کے ضلع چاہ آب، 30 اگست کو فاریاب کے ضلع قرغان میں اہم علاقہ، 31 اگست کو قندوز میں متعدد چوکیاں اور ایک فوجی اڈہ مجاہدین نے فتح کرنے کا اعلان کر دیا ان کارروائیوں میں دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان بھی ہوا ۔
3 اگست کو امارت اسلامیہ اور امریکی مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور دوحہ میں شروع ہوا ، 12 اگست تک جاری رہا اور 22 اگست کو امن مذاکرات کا نواں دور شروع ہوا جو اگست کے آخر تک جاری رہا ۔
23 اگست کو کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے بے شرمی کے ساتھ اعلان کیا کہ ان کی سکیورٹی فورسز بین الاقوامی سلامتی کے تحفظ کے لئے لڑ رہی ہیں ، امارت اسلامیہ نے افغان کٹھ پ تلی فورسز کے خلاف 19 برس تک مسلسل جہاد کیا اور وہ ملک کے اندر غیر ملکی حملہ آوروں کے مفادات کا دفاع کرتی ہیں ۔
ستمبر :۔
یکم ستمبر کو روزگان کے مرکز ترینکوٹ میں تین قابض فوجی ہلاک ہوگئے، اس کے بعد کابل میں گرین ولیج کیمپ پر ایک زبردست حملہ کیا گیا جس میں 200 سے زائد قابض فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ، اسی دن صوبہ غور میں ایک ڈرون طیارہ بھی گر کر تباہ ہوا، 5 ستمبر کو کابل میں فدائی مجاہدین نے قابض امریکی فوجی قافلے پر حملہ کیا جس میں بارہ امریکی فوجی ہلاک ہو گئے، اسی دن لوگر میں بھی قابض فوجیوں پر حملے میں متعدد قابض اہل کار مارے گئے، 19 ستمبر کو مجاہدین نے لوگر میں 8 قابض امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا اعلان کیا، 23 ستمبر کو ایک رابطہ کار پولیس اہل کار نے قندھار ہوائی اڈے میں فائرنگ کر کے 12 امریکی فوجیوں کو مار ڈالا، 30 ستمبر کو لوگر میں دو قابض امریکی فوجی ہلاک ہوگئے ۔
ستمبر کے مہینے کے دوران بدخشان کے ضلع فیض آباد میں اربکی کمانڈر، پکتیا کے ضلع احمد آباد کے پولیس چیف، غزنی میں ڈپٹی آئی جی پولیس اور ہلمند میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر مارے گئے ۔
فتوحات کے سلسلے میں یکم ستمبر کو صوبہ بغلان پر مجاہدین نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دارالحکومت کے مضافات میں تمام چوکیاں فتح ہو گئیں، اس ماہ کے دوران صوبہ بلخ کے ضلع زارع ، 6 ستمبر کو قندوز کے ضلع خان آباد، 7 ستمبر کو دشت آرچی، فراہ میں ضلع انار درہ، 8 ستمبر کو قندوز کے ضلع قلعہ زال اور بغلان میں گذرگاہ نور، 9 ستمبر کو صوبہ تخار کے ضلع خواجہ غار، 10 ستمبر کو تخار کے دو اضلاع ینگی قلعہ اور درقد، 14 ستمبر کو فراہ کے ضلع بالا بلوک، 21 ستمبر کو زابل کے ضلع شاجوی میں مرکزی بازار اور اہم فوجی اڈہ، 27 ستمبر کو سمنگان کے ضلع درہ صوف، فاریاب کے ضلع قرمقل اور 28 ستمبر کو جوزجان کے ضلع درز آب کو فتح کیا گیا ۔
2 ستمبر کو قندوز کے سی درک علاقے میں دشمن کے کمانڈوز پر فدائی حملہ کیا گیا جس میں 50 سے زیادہ کمانڈوز ہلاک ہوگئے اور اسی دن کابل میں گرین ولیج انٹیلی جنس سنٹر پر حملہ کیا گیا جس میں دو سو سے زائد اہل کار ہلاک اور زخمی ہو گئے ۔
12 ستمبر کو کابل کے ریشخور کے علاقے میں مجاہدین نے کمانڈو کے مرکز پر حملہ کیا جس میں درجنوں اہل کار ہلاک اور زخمی ہوگئے، 19 ستمبر کو زابل کے دارالحکومت قلات میں بھی دشمن کے فوجی اڈہ پر مجاہدین نے حملہ کیا جس میں متعدد سکیورٹی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے ۔
سیاست کے میدان میں یکم ستمبر کو امارت اسلامیہ اور امریکی مذاکراتی ٹیم کے درمیان امن مذاکرات مکمل ہوئے اور فریقین نے امن مسودہ تیار کیا، 7 ستمبر کو اچانک امریکی صدر ٹرمپ نے امارت اسلامیہ کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور بظاہر یہ بہانہ کر کے راہ فرار اختیار کی کہ طالبان نے کابل میں امریکی فوجیوں پر کیوں حملہ کیا جس میں ایک امریکی فوجی ہلاک ہوا ۔
اس اعلان کے بعد امریکی اور نیٹو کے متعدد اعلی حکام اپنے حملوں میں اضافے کی بات کر رہے تھے اور سب جنگ جاری رکھنے پر زور دے رہے تھے ، جس کے ردعمل میں امارت اسلامیہ نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ امریکہ اور نیٹو گذشتہ دو دہائیوں کی غلطیوں سے سبق سیکھیں ہم اپنے ملک کے دفاع کے لئے دشمن کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے جبکہ امن مذاکرات اور پرامن حل کے لئے ہمارے دروازے کھولے ہیں ۔
28 ستمبر کو ملک میں جعلی انتخابات ہوئے جن میں 35 ملین افغانوں میں سے صرف دو ملین افراد نے حصہ لیا جبکہ 9 ملین افغانوں کے نام رجسٹرڈ ہوئے، نام نہاد انتخابات کے دن مجاہدین نے دشمن کے اہم مراکز پر سینکڑوں حملے کئے اور امارت اسلامیہ کی رپورٹ کے مطابق دشمن پر 314 حملے ہوئے جن میں 100 سے زائد اہل کار مارے گئے، اسی طرح امارت اسلامیہ نے عوام کی جانب سے جعلی انتخابات سے بائیکاٹ کا خیرمقدم اور قوم کا شکریہ ادا کیا ۔
اکتوبر:۔
یکم اکتوبر کو صوبہ لوگر میں دو امریکی قابض فوجی ہلاک ہوگئے ، 13 اکتوبر کو غزنی کے ضلع دہ یک ایک امریکی فوجی سمیت 6 کمانڈو مارے گئے، 21 اکتوبر کو قندوز کے ضلع امام صاحب میں مزید دو حملہ آور مارے گئے ، 22 اکتوبر کو صوبہ ہلمند میں دشمن کے متعدد فوجیوں کی ہلاکت کی خبر شائع ہوئی، 24 اکتوبر کو صوبہ پروان کے مرکز میں ایک اور حملے میں 8 قابض فوجی ہلاک ہوگئے ، 28 اکتوبر کو صوبہ قندوز کے ضلع خان آباد میں چار امریکی فوجی اور 30 اکتوبر کو لوگر میں ایک امریکی فوجی ہلاک ہوا ۔
اکتوبر کے مہینے کے دوران صوبہ میدان وردگ کے ضلع چغتو کے گورنر ، پکتیا احمد آباد کے قاضی ، قندوز کے ضلع علی آباد میں چار کمانڈرز ، بادغیس میں پولیس چیف ، قندہار کے ضلع ڈنڈ میں ایک کمانڈر اور بغلان کے ضلع نہرین میں دو کمانڈر مارے گئے ۔
15 اکتوبر کو مجاہدین نے بلخ کے مزار شریف میں دشمن کا ہیلی کاپٹر اور 18 اکتوبر کو بغلان میں دوسرا ہیلی کاپٹر مار گرایا ۔
اگر آپ حملہ آوروں کے جرائم کا ایک مختصر جائزہ لیں تو یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ 9 اکتوبر کو امریکی ملٹری ٹائمز نے خبر شائع کی کہ امریکہ نے افغانستان پر یومیہ 31 بم برسائے ہیں، دوسری جانب 30 اکتوبر کو امریکی محکمہ دفاع نے بھی کہا ہے کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران افغانستان کی سرزمین پر 113 بم گرائے گئے تھے ۔
10 اکتوبر کو مجاہدین نے صوبہ میدان وردگ کے ضلع سید آباد میں 18 کمانڈوز کو ہلاک کر دیا، 13 اکتوبر کو غزنی کے ضلع دیک میں ایک امریکی فوجی سمیت چھ افغان کمانڈو ہلاک ہو گئے، 20 اکتوبر کو دایکندی کے ضع گیزاب میں مجاہدین کے ساتھ جھڑپ میں چودہ کمانڈو ہلاک ہو گئے، 31 اکتوبر کو صوبہ زابل کے ضلع نوبہار اور ضلع دایچوپان پر مجاہدین نے اپنا کنٹرول سنبھال لیا ۔
نومبر :۔
4 نومبر کو روزگان کے دارالحکومت ٹرین کوٹ میں ایک امریکی فوجی مارا گیا، 6 نومبر کو صوبہ لوگر میں قابض امریکی فوجی مجاہدین کے حملوں کی زد میں آئے جس میں 5 امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے، 20 نومبر کو لوگر میں دشمن کا ایک چینوک ہیلی کاپٹر گرایا گیا جس میں متعد قابض امریکی فوجی سمیت افغان کمانڈو ہلاک ہو گئے ۔
نومبر کے مہینے میں کابل انتظامیہ کے متعدد اہم کمانڈر مارے گئے، جن میں صوبہ میدان وردگ میں دو کمانڈر، پکتیا میں ایک کمانڈر، صوبہ بلخ کے ضلع چار بولک میں پولیس چیف، لوگر میں عدلیہ کے دو جج، صوبہ زابل کے ضلع اتغر کے پولیس چیف ، ننگرہار کے دارالحکومت میں ایک کمانڈر، تخار کے ضلع وردوج میں پولیس چیف، غزنی میں اپیلیٹ اٹارنی ، ضلع رشیدان میں ڈسٹرکٹ پولیس کمانڈر اور ہلمند میں ایک کمانڈر امریکی مفادات کے تحفظ کی جنگ میں جان کی بازی ہار گئے، اس کے علاوہ 5 نومبر کو اٹارنی جنرل کہا کہ گذشتہ سات ماہ کے دوران چودہ ججز ہلاک ہوئے ۔
یکم نومبر کو سیگار نے رپورٹ جاری کی کہ کابل انتظامیہ کی فورسز نے دفاعی حالت اختیار کی ہے اور ان کی ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ، دو نومبر کو ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ کابل انتظامیہ کے اعلی حکام قوم سے جھوٹ بول رہے ہیں، 8 نومبر کو مجاہدین نے صوبہ زابل کے ضلع اتغر پر بڑا حملہ کیا، 17 نومبر کو دایکندی کے ضلع گیزاب پر مجاہدین نے حملہ کیا جبکہ 28 نومبر کو تخار کے ضلع درقد پر مجاہدین نے حملہ کیا ۔
9 نومبر کو زابل کے ضلع ارغنداب میں جاسوسی ادارے کے دفتر، 14 نومبر کو غزنی کے ضلع قرہ باغ میں سات چوکیاں، 19 نومبر کو میدان وردگ اور غزنی میں متعدد چوکیاں، 20 نومبر کو قندوز کے ضلع امام صاحب میں ایک فوجی اڈہ فتح کیا گیا ۔
خوشی کی خبر یہ ہے کہ کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے کابل میں امریکی یونیورسٹی کے دو لیکچررز کے تبادلے میں امارت اسلامیہ کے تین ارکان کی رہائی کا اعلان کیا، جبکہ ان کے ترجمان نے اس سے محض ایک روز قبل کہا کہ ان تینوں افراد کی رہائی کابل انتظامیہ کے لئے سرخ لکیر ہے ، وہ کبھی بھی امریکہ کے ممکنہ دباؤ کی وجہ سے انہیں رہا نہیں کریں گے ۔
18 نومبر کو امارت اسلامیہ کے تینوں رہنما قطر پہنچ گئے اور وہاں پر امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے رہنماوں نے ان کا استقبال کیا، اگلے روز صوبہ زابل کے ضلع نوبہار میں کابل یونیورسٹی کے دو لیکچررز کو بھی رہا کر دیا گیا ۔
11 نومبر کو امریکی چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی فوج کو مزید چار سال تک برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے ردعمل میں امارت اسلامیہ کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں حملہ آوروں کی موجودگی کا مطلب یہاں جنگ کا تسلسل برقرار رکھنا ہے اور ہمارے مجاہدین آخری حملہ آور کی موجودگی تک جہاد جاری رکھیں گے ۔
ایک شرمناک واقعہ یہ ہے کہ 29 نومبر کو امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کا اچانک اور خفیہ دورہ کیا جبکہ کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی کو پتہ ہی نہیں تھا، ٹرمپ جب کابل میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے بگرام پر اتر گئے تو اشرف غنی کو بھی ملاقات کے لئے بلایا گیا اور پھر انہیں ایک صدر مملکت کا جو پروٹوکول ہوتا ہے وہ پروٹوکول بھی نہیں دیا گیا جس پر ملک کے اندر عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اشرف غنی کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔
دسمبر :۔
16 دسمبر کو ہرات کے پشتون زرغون ضلع میں دو قابض امریکی فوجی ہلاک ہو گئے، 23 دسمبر کو قندوز کے ضلع چہار درہ میں ایک قابض فوجی ہلاک ہوا، 27 دسمبر کو صوبہ قندوز کے دارالحکومت میں مزید دو امریکی حملہ آور مارے گئے ۔
کابل انتظامیہ کے اہم کمانڈروں کو نشانہ بنانے کے سلسلے میں دسمبر میں قندوز کے ضلع امام صاحب میں دو کمانڈر، صوبہ بلخ کے ضلع شولگر میں اسپیشل فورسز کے ایک کمانڈر ، غزنی کے ضلع قرہ باغ میں چار اربکی کمانڈر اور کاپیسا کے ضلع آلہ سای میں ایک اربکی کمانڈر مارا گیا ۔
یکم دسمبر کو بگرام اڈے کے مقام پر مجاہدین نے زبردست حملہ کیا جس میں قابض امریکی فوج کو ایندھن لے جانے والے درجنوں فیول ٹینکروں کو تباہ کیا گیا، 9 دسمبر کو صوبہ ہلمند کے ضلع ناد علی میں دشمن کے ایک فوجی اڈے پر کار بم دھماکہ کیا گیا جس میں متعدد اہل کار مارے گئے، 11 دسمبر کو ایک بار پھر بگرام میں امریکی بیس کو نشانہ بنایا گیا جس میں درجنوں ملکی اور غیر ملکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے اور متعدد عمارتیں اور مراکز مکمل طور پر تباہ ہوگئے، 27 دسمبر کو صوبہ ہلمند کے ضلع سنگین میں دشمن کے فوجی اڈے پر مجاہدین نے بڑا حملہ کیا جس میں 26 فوجی ہلاک ہوئے ۔
فتوحات کے سلسلے میں 2 دسمبر کو قندوز کے ضلع خان آباد میں دو مراکز ، 6 دسمبر کو ضلع امام صاحب میں ایک فوجی اڈہ، 24 دسمبر کو صوبہ بلخ کے ضلع دولت آباد میں ایک فوجی مرکز کو فتح کیا گیا اور بھاری مقدار اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ۔
7 دسمبر کو امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے اور امن معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دینے کے لئے قطر پہنچ گئے ۔
10 دسمبر کو واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ شائع کی کہ اس کو خفیہ دستاویزات ملی ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغان جنگ کے حقائق کو ابتدا ہی سے ہی خفیہ رکھا گیا تھا ، ان دستاویزات کے مطابق امریکی جرنیلوں اور سیاسی قائدین کو معلوم تھا کہ افغانستان کی انتھک جنگ میں امریکہ کو شکست ہوئی ہے ، اس کے باوجود انہوں نے ہلاکتوں کی تعداد کے باوجود جنگ کے حقائق کو اپنے عوام سے خفیہ رکھا اور وہ عوام کو جھوٹ بولتے رہے ۔
22 دسمبر کو جعلی انتخابات کے تین ماہ کی تاخیر کے بعد نتائج کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق افغانستان کی ساڑھے تین کروڑ آباد میں محض پندرہ لاکھ سے کم افراد نے انتخابات میں حصہ لیا تھا انتخابی نتائج کے مطابق اشرف غنی کو پہلے نمبر پر رکھا گیا جس کو تمام اپوزیشن نے مسترد کر دیا، ان انتخابات اور انتخابی نتائج کو دنیا کے سب سے زیادہ شرمناک عمل سمجھا جاتا ہے اس لئے دوسرے امیدواروں نے اسے قبول نہیں کیا ۔
امارت اسلامیہ نے افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کے چالیس سال مکمل ہونے کے موقع پر ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں قابض امریکی افواج کو وارننگ دی کہ وہ سوویت یونین کی شکست سے سبق حاصل کریں اور ہمارے ملک پر ناجائز قبضہ ختم کریں ۔