بغداد انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے قریب امریکی حملے میں سلیمانی کی ہلاکت کی امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے تصدیق کے بعد صدر ٹرمپ نے فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ ‘مار آ لاگو’ پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے پہلی مرتبہ بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا ’’کہ ان کا ملک دنیا کے سرکردہ دہشت گرد قاسم سلیمانی کا صفایہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ذاتی طور پر پاسداران انقلاب کی ایلیٹ القدس فورس کے سربراہ کو ہلاک کرنے کا حکم دیا۔ امریکا کے پاس ایسے منصوبوں اور اہداف کی لمبی فہرست جسے وہ [قاسم سلیمانی] کسی بھی وقت روبعمل لا سکتا تھا۔

اپنے خطاب میں امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ وہ جنگ شروع نہیں بلکہ روکنا چاہتے ہیں۔ امریکا، ایرانی عوام کا قدر دان ہے۔ ہم ایرانی حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں ایران کی حکومت کے جارحانہ اقدامات، خصوصا اپنے ہمسایہ ملکوں کو غیر مستحکم کرنے کے لئے پراکسی جنگجووں کا استعمال، اب ختم ہونا چاہئے۔

صدر ٹرمپ نے قاسم سلیمانی کو ہزاروں امریکی، عراقی اور ایرانی شہریوں کی اموات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو بہت پہلے قتل کر دیا چاہیے تھا کیونکہ انھوں نے ‘معصوم شہریوں کی ہلاکت کو اپنا مریضانہ جنون بنا لیا تھا’۔ جنرل سلیمانی ‘دہشت گردی کا ایک ایسا نیٹ ورک چلانے کے ذمہ دار تھے، جس کی رسائی مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا تک تھی’۔

’’سلیمانی کو بہت پہلے مار دینا چاہتے تھا‘‘

مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹویٹر پر اپنے سلسلہ وار ٹویٹ پیغامات میں امریکی صدر نے الزام عاید کیا کہ قاسم سلیمانی حالیہ دنوں میں ایران کے اندر ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک شہریوں کے قتل کے بھی ذمہ دار تھے۔ ایرانی عوام، قاسم سلیمانی کے قتل پر حکومتی سوگ کا قطعی طور پر حصہ نہیں بنیں گے۔

امریکا نے جمعہ کے روز ڈرون طیاروں کے ذریعے ایک منظم آپریشن کر کے عراقی پاپولر موبلائزیشن فورس کی قیادت اور ارکان کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ ایک غیر ملکی وفد کے ہمراہ بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے جنوبی دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ بعد ازاں سامنے آنے والی خبروں سے اس امر کی تصدیق ہوئی کہ عراقی رہنماؤں کے ہمراہ نشانہ بننے والے دوسرے افراد میں القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی بھی شامل تھے۔

حملے میں القدس فورس کے قاسم سلیمانی سمیت، عراق کی الحشد الشعبی کے نائب سربراہ ابومھدی مھندس، اسی تنظیم کے شعبہ تعلقات عامہ محمد الجابری اور حیدر علی شامل تھے۔  امریکی کارروائی کے نتیجے میں متعدد ایسی جلی ہوئی لاشیں بھی ملی ہیں جن کی اب تک شناخت نہیں ہو سکی۔

دوسری جانب ایسی غیر مصدقہ خبریں بھی تواتر سے سامنے آ رہی ہیں جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ لبنانی حزب اللہ کے رہنما محمد الکوثرانی اور تنظیم میں عراقی چیپٹر کے نگران بھی حملے کا نشانہ بنے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے