ہفتہ وار تبصرہ

اقوام متحدہ نے کہا کہ افغانستان میں آئندہ سال یعنی 2020ء ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد کو زندگی بنیادی ضروریات  اور اشیاءخوردونوش کی امداد کی اشد ضرورت ہوگی۔افغانستان میں گذشتہ  چند دہائیوں سے مردم شماری نہیں کی گئی ہے، مگر اندازہ یہ ہے کہ ملک میں تقریبا تین کروڑ افراد زندگی گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کی رو سے اس عددوشمار کےمطابق  افغانستان کی تقریبا نصف آبادی اس حد تک غربت زدہ ہے کہ اشیاءخوردونوش کی امداد کو ترس رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کا یہ اندازہ اس حال میں نشر ہوا،کہ دوسری جانب گذشتہ اٹھارہ برس سے میڈیا نے غوغا برپا کر رکھی ہے اور افغانستان کیساتھ بیرونی ممالک کا امداد، تعمیرنو، معاشی ترقی  اور برآمدکے ذرائع کی ترقی کا پروپیگنڈہ کررہا ہے۔  خود کو ناکام حکومتوں کا معمار اور دنیا کا دوسرا مفکر سمجھنے والے صدارتی محل کا حکمران مسلسل طور پر ائیر کوریڈور اور تصوراتی ترقی کا دعوہ کررہا ہے۔  مگر عملی میدان میں فقر، بےروزگاری اور معاشی بحران اس حد تک جاپہنچا ہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کھانے کے لیے روٹی سے محروم ہے۔

استعمار اور اس کے زیرسایہ  انوکھے حکمرانوں کے گفتار و کردار  کا تضاد اور دورخی گہرے سوچ کا قابل ہے،تاکہ اس سے بہت کچھ سیکھا جائے۔  گذشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران مختلف نعروں اور وعدوں سے افغان عوام کو ورغلانےوالے کوشش کرتا رہا، میڈیا کے پروپیگنڈوں میں افغانستان کی تعمیرنو اور ترقی کے جھوٹے دعوے کرتے رہے،مگر صرف اپنے استعماری اہداف کو عملی طور پر پروان چڑھا رہا تھا۔

اب وقت آں پہنچا ہے کہ ان جھوٹے اور غدار مہروں کو  تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے۔ان کے گفتار اور کردار کا موازنہ کیا جائے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ انہوں نے اٹھارہ برس میں افغان مؤمن ملت سے سچ کہا اور یا  جھوٹ سے عوام کو ورغلانے کی کوشش کی ؟؟

اٹھارہ سالہ تجربات کے بعد افغان مؤمن عوام کو مزید مکار استعمار گر اور جھوٹے غلاموں کے دعوؤں کے فریب اور نہ ہی امداد کے انتظار میں رہنا چاہیے۔ یہ بات واضح  ہے کہ استعمار کے لیے  صرف اپنے مفادات عزیز ہے اور اس کے غلام بھی صرف اپنا ذاتی سرمایہ بڑھانے کی کوشش میں ہے۔

ہمارا ملک صرف اس وقت ترقی اور عوام موجودہ معاشی بحران سے نجات پا سکتا ہے، کہ افغان ملت اپنی مدد آپ کے تحت تعمیرنو، معاشی  ترقی  اور پیشرفت کا عزم کریں۔ کوئی اجنبی ہمارے  دکھ سے باخبر اور نہ ہی اس کی جانب سے نصب کردہ کٹھ پتلی اس ملت کے  درد کا دوا بن سکتا ہے۔

جس طرح امارت اسلامیہ سیاسی ملکیت کے شعبے میں استقلال پر اصرار کررہی ہے، اسی طرح ملک کے معاشی مسائل کے حل بھی اہل وطن کی تعمیراتی، تجارتی اور ترقیاتی خودارایت میں دیکھ رہی ہیں۔ لہذا عوام اجنبی کے انتظار میں  نہ رہے اور اپنے سرشار ذرائع اور امکانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس فقرزدہ معاشرے کے زخموں پر مرہم پٹی کریں۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے