تحریر: احمد مختار

جعلی اور دھاندلی زدہ صدارتی انتخابات کے ڈھائی مہینے گزر گئے لیکن تاحال ان کے نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اور امریکی سفیر کی فرمائش تک انتخابی عمل کا انجام معطل رہے گا ۔

شاید غیر یقینی کی مدت میں مزید توسیع ہوگی کیوں کہ یہ عمل کابل کے بجائے واشنگٹن کی خارجہ پالیسی سے منسلک ہے اور واشنگٹن کے پاس انتخابی عمل کے علاوہ دیگر آپشنز بھی ہیں تاکہ افغان تنازعہ کو مزید مشکل بنایا جاسکے ۔

افغانستان میں انتخابی عمل پر تقریبا 192 ملین ڈالر خرچ ہوئے اور کابل کے سیکیورٹی فورسز کے سیکڑوں اہلکار انتخابات کے دن ہلاک اور زخمی ہوئے ۔ لیکن اس کے باوجود انتخابات کے نتائج اب ایسی مشکل حالت میں ہیں کہ امیدواروں کے درمیان سیاسی اختلافات تصادم تک پہنچ گئے اور ان کے درمیان تصادم کے نتیجے میں مزید اتنے اہل کار ہلاک ہوسکتے ہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ ان انتخابات کا فائدہ کیا ہے جو قوم و ملک کے لئے باعث آزمائش ہو اور امیدواروں کے درمیان تصادم ہو، کیا یہ الیکشن عوام کے زخموں کا مداوا ہوسکتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ قابض امریکی جو افغانستان میں سیاسی بحران پیدا کرنے کے اصل مجرم ہیں اور وہی انتخابات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں وہ انتخابات کے علاوہ دیگر آپشنز بھی استعمال کر رہے ہیں تاکہ افغانستان میں بحرانوں اور بدامنی کو پیدا کر کے وہ اپنے مقاصد حاصل کریں ۔

انتخابات کی دوڑ میں شامل امیدواروں نے بھی ان خدشات کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ انتخابی عمل کے پیچھے غیر ملکی قوتوں کا عمل دخل شامل ہے اور وہ ہر حال میں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوں گے، جبکہ انتخابی مہم کے دوران امریکہ نے امارت اسلامیہ کے ساتھ مذاکراتی عمل کو جاری رکھا اور الیکشن سے چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بلا وجہ اچانک امن عمل منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا ۔ ٹرمپ نے مذاکراتی عمل کو اس لئے ملتوی کردیا کیونکہ اس میں امریکی مفادات محفوظ نہیں تھے ۔

انتخابی عمل اگرچہ الیکشن کمیشن کی زیرنگرانی مکمل ہوا اور اس میں افغان امیدواروں نے حصہ لیا لیکن درحقیقت یہ عمل امریکہ اپنے مفاد کے لئے استعمال کر رہا ہے اور حالیہ انتخابات کے نتائج کی تاخیر میں بھی امریکی سفارتخانے کا عمل دخل ہے اور اس کے احکامات سے نتائج کا مستقبل وابستہ ہے ۔

اشرف غنی، ڈاکٹر عبداللہ اور دیگر جعلی عمل میں شریک دیگر نامزد امیدواران اگرچہ افغانوں کے نام سے اس عمل میں شریک ہوئے لیکن ان کی شرکت کا فائدہ امریکہ اٹھا رہا ہے ۔

ملک کی ساڑھے تین کروڑ آبادی میں صرف دس لاکھ افراد کی انتخابی عمل میں شرکت کا مطلب یہ ہے کہ انتخابات لوگوں کے ووٹوں اور رائے کی اہمیت کے بغیر ہوئے اور امریکہ نے صرف مفاد کے لئے انتخابی عمل کا انعقاد کیا اور جب تک ہمارے ملک کی سرزمین اور فضا پر امریکہ قابض رہے گا، انتخابات سمیت تمام قومی منصوبے ان کے مفاد میں ہوں گے لہذا سب سے پہلے وطن عزیز سے قابض قوتوں کے ناجائز اور غیر قانونی قبضے کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کے بعد تمام افغان مل کر ملک کی ترقی اور مستقبل کے نظام کے تعین کے لئے ایک میز پر بیٹھ کر بہتر فیصلے کریں گے اور ملک کو سنوارنے کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے ۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے