پاکستان میں  خصوصی عدالت نے سابق صدر اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین شکنی کیس میں سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے۔

خصوصی عدالت کے سربراہ وقار سیٹھ نے مختصر فیصلہ سنایا، 3 رکنی بنچ نے دو ایک سے یہ فیصلہ دیا جبکہ اس پر ایک جج نے اختلاف کیا۔

یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی شخص کو آئین شکنی کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 کا جرم ثابت ہوتا ہے۔

خصوصی عدالت کے جج نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں انکے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ اب گزر چکا ہے۔

خصوصی بینچ کے رکن نے حکومتی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، ہم آپ کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس وقار احمد سیٹھ نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ آپ مرکزی کیس پر دلائل دینا چاھتے ہیں یا نہیں۔

قبل ازیں، اسلام آباد میں خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت ہوئی، سابق صدر کی جانب سے ان کے وکیل نے خصوصی عدالت میں دفعہ تین سو بیالس میں بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست دائر کر دی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں، خصوصی عدالت بیان ریکارڈ کرانے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے، اور عدالتی کمیشن یو اے ای جا کر پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرے

دوسری طرف حکومت نے مشرف کے خلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کر دی ہے، جس میں شوکت عزیز، عبد الحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی گئی ہے، پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔

عدالت نے اس پر کہا کہ ساڑھے 3 سال بعد ایسی درخواست کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ آج مقدمہ حتمی دلائل کے لیے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ جنھیں ملزم بنانا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ تو گزر چکا ہے، کیا شریک ملزمان کے خلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟

خصوصی عدالت میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت ہوئی۔

سنگین غداری کیس کی مسلسل 3 ماہ سماعت کی گئی۔

اس سے قبل عدالت نے دورانِ سماعت استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام کیس میں شامل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔

استغاثہ نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز کو بھی شریک ملزم بنایا جائے۔

خصوصی عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، آپ نے ترمیمی شکایت داخل کرنے سے متعلق وفاقی کابینہ کی منظوری لی؟

وکیل استغاثہ علی باجوہ نے جواب دیا کہ سیکریٹری داخلہ کو 12 دسمبر کو خط لکھا تھا۔

عدالت نے ہدایت کی کہ ہمارے سامنے اس سے متعلق کوئی درخواست نہیں، آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دیں۔

وکیل استغاثہ علی باجوہ نے کہا کہ ہم 2 مزید گواہان پیش کرنا چاہتے ہیں۔

جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ آپ استغاثہ ہو کر ملزم کے دلائل دے رہے ہیں، آپ پرویز مشرف کی بریت کی درخواست کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟

وکلائے استغاثہ علی باجوہ اور منیر بھٹی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم بریت کی درخواست کی مخالفت کریں گے۔

عدالت نے سماعت کے دوران متعدد بار ہدایت کی کہ استغاثہ اپنے دلائل شروع کرے۔

وکیل استغاثہ علی باجوہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیئر ٹرائل کا فیصلہ بھی آچکا ہے۔

جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھنا ہے۔

پرویز مشرف کے سابق وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں بولنے کی اجازت مانگ لی۔

عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ ہم آپ کو بولنے کی اجاز ت نہیں دے سکتے، آپ پہلے سپریم کورٹ سے اپنے فیصلے پر ریویو کرائیں، یہ پیچیدہ مقدمہ ہے، آپ کو اجازت نہیں دے سکتے، البتہ آپ رضا بشیر کی معاونت کر سکتے ہیں۔

جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ اشتہاری کا کوئی حق نہیں ہوتا جب تک وہ عدالت کے سامنے سرینڈر نہ کرے۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ 100 فیصد بد دیانتی کر رہا ہے۔

پرویز مشرف کے وکیل رضا بشیر نے دلائل دیتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ پرویز مشرف کو 342 کا بیان دینے کا ایک اور موقع دیں۔

جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ عدالت نے موقع فراہم کیا، اب وہ وقت گزر چکا ہے، آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دیں، آپ 342 کا بیان دیں، آپ کو سن لیا، آپ کا شکریہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے