اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چھ ماہ میں معاملہ حل نہ ہوسکا تو وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت حاضر سروس جنرل کو نیا سربراہ مقرر کریں گے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ 43 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 2 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے لکھے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کاعہدہ طاقتور ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل کی مدت ملازمت اور ریٹائرمنٹ قانون میں متعین نہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون میں جنرل کی مدت ملازمت سے متعلق کوئی شق موجود نہیں ہے۔ منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملے پر قانون سازی کریں۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق وزارت دفاع کی صدر، وزیراعظم اور کابینہ سے منظوری قانون کے بغیر بے معنی ہے۔ آرمی ریگولیشن کا سیکشن 255 جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار نہیں دیتا۔ سیکشن 255 صرف عارضی مدت ملازمت کیلئےاستعمال ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ معاملے کا ہمیشہ کیلئے حل نکالے۔ آرمی چیف کی تنخواہ اور الاؤنس آرٹیکل 243 کی ذیلی شق 4 کےتحت واضح ہونے ہیں۔

عدالت عالیہ کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر جاری تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت نے 6 ماہ میں قانون سازی کی یقین دہانی کرائی۔ اگر چھ ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو حاضر سروس جنرل کو نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔ نیا آرمی چیف صدر اور وزیراعظم کی سفارش پر مقرر کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے