آج کی بات

گذشتہ روز صبح سویرے بگرام فوجی ہوائی اڈہ ، جو اس وقت افغانستان میں امریکہ کی زیر قیادت غیر ملکی فوجیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے ، پر امارت اسلامیہ کے فدائی مجاہدین نے دو استشہادی حملے کئے ۔ بعدازاں دیگر فدائی مجاہدین جو اسلحہ ، آتشیں ہتھیاروں، دستی بموں اور بارودی واسکٹوں سے لیس تھے ، بگرام میں داخل ہوئے اور غیر ملکی فوجیوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا ۔

اس طرح غیر متوقع طور پر حملہ کرنا واقعی بھی دشمن کے لئے ہر لحاظ سے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے ، کیونکہ اس وقت اور اس طرف سے بظاہر مجاہدین کی آمد کی توقع نہیں تھی اس لئے دشمن جنگ کے لئے آمادہ بھی نہیں تھا اور اچانک اتنا خطرناک حملہ ہوا تو ظاہر ہے کہ دشمن کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا

اگرچہ ابھی تک مقامی ذمہ داران اور انٹلی جنس مجاہدین سے ابھی تک مکمل تفصیلات موصول نہیں ہوسکی ہیں لیکن وہاں سے جو ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں ان سے خوب پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک خطرناک حملہ تھا جس سے قابض دشمن اور افغان فورسز کو بھاری نقصان ہوا ۔

دوسری جانب کابل انتظامیہ کے حکام ، جن کے پاس واقعے کی نوعیت ، معیار اور حتی کہ علاقے کے بارے میں قطعی معلومات نہیں ہیں ، نے حسب سابق یہ دعوی کیا کہ اس واقعے میں غیر ملکی فوجیوں کو کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ تمام متاثریں تمام عام شہری ہیں، حکام نے یہ بھی کہا کہ یہ حملہ ناکارہ کورین اسپتال پر کیا گیا جس سے ایک مسجد منہدم ہوگئی ۔ لیکن کابل انتظامیہ کی یہ بات معقول نہیں ہے کیونکہ وہاں پر دو کار بم دھماکے کسی ایسے اسپتال میں کیسے جاتے ہیں جہاں کوئی شخص موجود نہیں تھا اور پھر اس کے بعد فریقین کے درمیان 14 گھنٹے تک جنگ رہی ۔

عام شہریوں کی ہلاکتوں کا دعوی بھی حقیقت سے دور ہے کیونکہ بگرام کے آس پاس ہزاروں میٹر دور بھی عام شہریوں کو رہنے کی اجازت نہیں ہے، صرف ان لوگوں کو غیر ملکیوں نے اجازت دی ہے کہ وہ براہ راست ان کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔

بہرحال یہ حملہ اس سے پہلے ہلمند ، بدخشان ، تخار ، فاریاب ، کاپیسا ، غزنی ، زابل اور دیگر علاقوں میں سفاک دشمن کی جانب سے فضائی حملوں اور چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اس وقت افغانستان کی اس طویل المیے کے خاتمے کے لئے امریکی مذاکراتی ٹیم اور قطر میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے رہنماوں کے درمیان بات چیت کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے، تاکہ مذاکرات کے ذریعے افغان تنازع کا خاتمہ کیا جائے اور قابض غیرملکی افواج کے انخلا کے لئے راستہ ہموار کیا جائے ۔

پچھلی بار جب مذاکرات کامیاب ہوئے اور فریقین معاہدے کے قریب پہنچ گئے تو ٹرمپ نے ایک حملہ بہانہ بناکر مذاکرات ترک کردیے لیکن نہ صرف جنگ کم نہیں ہوئی بلکہ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف خونریز حملے ہوئے لہذا اگر مذاکرات کا عمل حملوں کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ جنگ کی شدت کا سبب بنے اور اگر مذاکراتی عمل میں سچائی سے کام لیا گیا اور ایک دوسرے بہانے سے یہ عمل معطل نہ کیا گیا اور نہ ہی کابل انتظامیہ کو مذاکراتی عمل سپوتاژ کرنے کی اجازت دی گئی تو ممکن ہے کہ افغانستان پر امریکی جارحیت اور طویل المیہ کا خاتمہ کیا جا سکے ۔

یہ خونریز جنگ سب سے پہلے اس لئے شروع ہوئی کہ امریکہ مفاہمت پر یقین نہیں کرتا تھا جبکہ امارت اسلامیہ نے ہمیشہ ڈائیلاگ پر زور دیا ہے اور اس کو حل قرار دیا ہے اور بلا شبہ یہ افغان تنازع کا واحد حل ہوگا ۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے