ہفتہ وار تبصرہ

کہتے ہیں کہ سورج وہ حقیقت ہے،جسے کوئی بھی جھوٹے نقابوں سے نہیں چھپا سکتا۔شاید اس  کی روشنی  عارضی طورپر جھوٹے بادلوں کی وجہ سے مدھم ہوجائے،مگر وقت گزرنےکیساتھ ساتھ حقائق ضرور روشن ہوکر  ہر کسی کے  مشاہدہ اور ماننے کے قابل ہوجاتے ہیں۔افغانستان پر بیرونی قابض افواج کی جارحیت کے خلاف ملک گیر عوامی قیام اور آخرکار استعمار کی ناکامی اور فوجی حربوں کی غیرمؤثریت وہ حقائق ہیں،جنہیں گذشتہ اٹھارہ برسوں سے استعمار اور  میڈیا  مشترکہ طورپر چھپانے اور تحریف کرنیکی کوشش کررہاہے۔  اس حال میں کہ استعمار کی کامیابی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی، تو میڈیا میں خود کو کامیاب  اور اپنے  خلاف وسیع عوامی جہادی مزاحمت  کوایک محدود بغاوت تصور کرتا ہے۔

مگر جیسا کہ کہا گیا کہ حقائق ہمیشہ خفیہ نہیں رہ جاتے۔ اب اٹھارہ سال کے بعد افغان جنگ کے حوالے سے کافی سارے حقائق امریکی ہی میڈیا کی جانب سے افشاء ہوچکے ہیں۔

معروف امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ نے ایک امریکی نگران ادارے سیگار کی دو ہزار  صفحات پر مشتمل ان اسناد کو شائع کیں،جو  افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کے حقیقی حالت سے پردہ اٹھاتاہے  اور ان  حقائق کو سامنے لا رہا  ہے،جنہیں گذشتہ اٹھارہ برس خفیہ رکھے گئے تھے۔

ان اسناد کا ایک عمدہ حصہ ان چار سو افراد کی انٹرویوز ہیں، جو افغان جنگ میں کسی نہ کسی ذمہ داری کے حامل تھے۔ انٹرویوز مختلف اوقات میں لی گئی ہیں،ان میں سے اکثریت جنگ کی ناکامی کی گفتگو کررہے ہیں اور اعتراف کررہا ہے کہ افغانستان میں بش، اوباما اور ٹرمپ کی فوجی پالیسیاں شکست سے دوچار  ہیں۔ انہوں نے قبول کرلیا کہ امریکا کے پاس افغانستان میں لڑائی کے لیے کوئی منطقی دلیل اور واضح پالیسی نہیں ہے، یہاں تک امریکی جنرل اس حد تک نہیں سمجھتے کہ افغانستان کیسا ملک ہے اور وہ یہاں کس لیے لڑ رہے ہیں؟؟

جنگ کے اصل حالت سے پردہ اٹھا نے والے موجودہ اسناد کو گذشتہ اٹھارہ برسوں سے امریکی عوام اور دنیا سے خفیہ رکھے گئے تھے۔ میڈیا نے ان خفیہ حقائق کےبجائے عوام سے جھوٹ بولا، افغانستان میں امریکی پالیسیوں  کی کامیابی کا پروپیگنڈہ کرتارہا   اور اس نظریہ کو پھیلاتا رہا  کہ افغانستان میں فوجی راہ حل سے کامیابی ممکن ہے۔

مگر اس کے برعکس امارت اسلامیہ ابتداء ہی سے یہی بات کرتی رہی  کہ افغانستان پر امریکی جارحیت اور لڑائی جاری رکھنے کا کوئی منطقی اور قانونی جواز نہیں ہے۔  افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی بےمعنی ہے اور امریکی منصوبہ ساز جنگ طلب جنرل فوجی پالیسیاں بنانے سے اس جنگ کو نہیں جیت سکتا۔

اب حقائق ظاہر ہوئے، تو جنگ طلب جنرل اور وہ تمام فریق جو جارحیت کے دوام سےجنگ  کو گرم رکھنا چاہتا ہے،انہیں چاہیے  کہ ان حقائق کو فی الفور اور گہرے سوچ سے ملاحظہ اور آخر میں مان لے۔ سالم عقل کا تقاضا یہ ہے کہ حقائق کو تسلیم کیا جائے  اور ان کی روشنی میں آگے قدم بڑھایا جائے،لہذا  اب وہ وقت آں پہنچا ہے کہ جارحیت کا خاتمہ ہوجائے،تاکہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ختم ہوجائے، جس کی ناکامی پر برسوں قبل اجماع موجود تھی۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے