نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت میں متنازع بل منظور ہونے کے بعد ملک میں جاری مظاہرے پرتشدد ہونے لگے، مشرقی ریاستوں میں کئی ریلوے اسٹیشنوں کو آگ لگا دی گئی۔آسام میں کشیدہ صورتحال برقرار ہے، پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ کے دوران ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں قوم پرست جماعت بی جے پی نے شہریت معاملے پر متنازع بل پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کرا لیا ہے، اب اس متنازع بل کو قانونی شکل اختیار دینے کے لیے صرف بھارتی صدر کے رسمی دستخط باقی رہ گئے ہیں جبکہ متنازع بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ یہ بل یونین مسلم لیگ کی طرف سے چیلنج کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق جن علاقوں میں حالات زیادہ کشیدہ ہیں، ان میں منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ شامل ہیں، ریاست آسام کے شہر گوہاٹی میں غیر معینہ مدت کا کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔ متعدد پروازیں اور ٹرینوں کی آمد و رفت منسوخ کر دی گئی ہے۔

یونیورسٹیوں کے امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مغربی بنگال میں جادھو پور یونیورسٹی اور دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ نے بڑے پیمانے پر جلوس نکال کر شہریت بل کی مخالفت کی ہے۔

اُدھر آسام میں حکومت نے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بند کرا دی ہے۔ مشتعل مظاہرین نے آر ایس ایس کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگانے کی کوشش کی جبکہ آسام کے وزیر اعلٰی سونووال اور وفاقی وزیر رامیشور تیلی کے گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کرنا پڑی جس میں کئی افراد زخمی ہو گئے جن کی حالت تشویشناک ہے جبکہ چند کے ہلاک ہونے کا خدشہ بھی ہے۔

یاد رہے کہ 20 کروڑ سے زائد مسلمان شہریوں کو خدشہ ہے کہ متنازع قانون کا اصل ہدف انہیں بنایا جائے گا۔ کیونکہ حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے بعد شہریت رجسٹر کا قانون لایا جائے گا جس کے تحت ہر مسلمان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اس ملک کا حقیقی شہری ہے۔

آسام میں انٹر نیٹ اور فوج تعینات کرنے کے بعد نریندر مودی پر تنقیدی نشتر چل گئے ہیں، بھارتی وزیراعظم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل جس پر کانگریس نے طنزا ری ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ جناب مودی آسام میں انٹرنیٹ بند ہے وہاں لوگ کیسے آپ کے ٹویٹ پڑھیں گے۔

یاد رہے کہ متنازع بل کے ذریعے 2015 سے قبل پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مذہبی بنیادوں پر زیادتی کا نشانہ بننے کی وجہ سے بھارت آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور مسیحیوں کے لوگوں کو بھارت کی شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے