الجزائر میں کرپشن کے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالت نے سابق وزیراعظم احمد او یحییٰ کو بدعنوانیوں کے جرم میں قصور وار قرار دے کر پندرہ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ان پر عاید کردہ کرپشن کے الزامات درست ثابت ہوئے ہیں۔

عدالت نے الجزائر کے ایک اور سابق وزیراعظم عبدالمالک سلال کو بدعنوانیوں کے الزامات میں قصوروار قرار دے کر بارہ سال قید کا حکم دیا ہے۔ ان کے بیٹے کو بھی اسی جرم میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا ہے۔

کرپشن کے اس مقدمے میں کئی ایک سابق وزراء اور سرکاری اہلکار قصور وار پائے گئے ہیں۔الجزائر میں اپریل میں سابق مطلق العنان صدرعبدالعزیز بوتفلیقہ کی عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں معزولی کے بعد یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے اور اس میں ان کی حکومت کے سابق اعلیٰ عہدے داروں کو ماخوذ کیا گیا ہے۔

اس میں کل انیس مدعاعلیہان کے خلاف فرد جرم عاید کی گئی تھی۔ان میں دو سابق وزراء اعظم ، سابق معروف سیاست دان اور آٹو موبائیل صنعت کے ٹائیکون شامل ہیں۔ان کے خلاف منی لانڈرنگ ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور اقرباپروری کے الزامات میں مقدمہ چلایا گیا ہے۔

الجزائر میں آٹو موبائل سیکٹر نے 2014ء میں غیرملکی گروپوں اور ملک کی بڑی کارپوریشنوں کے اشتراک سے کام کا آغاز کیا تھا۔یہ کارپوریشنیں سابق صدر بوتفلیقہ کی حکومت میں شامل اعلیٰ عہدے داروں اور وزیروں، مشیروں ہی کی ملکیتی تھیں۔

عدالت نے سابق وزیر صنعت عبدالسلام شوآرب کو ان کی ملک میں عدم موجودگی میں بیس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔وہ الجزائر سے راہ فرار اختیار کرکے بیرون ملک جابسے ہیں۔ دو اور سابق وزیر صنعت محجوب بدا اور یوسف یوسفی کو دس، دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

الجزائر کی معروف کاروباری شخصیت اور تعمیراتی فرم ای ٹی آر ایچ بی کے شریک بانی علی حداد کواسی مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔وہ ملک کی اجیروں کی تنظیم کے سابق سربراہ ہیں۔

گاڑیوں کے اسمبلی پلانٹس کی مالک تین کاروباری شخصیات احمد مازوز ،حسن عربوئی اور محمد بیری کو بالترتیب سات سال ، چھے سال اور تین سال سزائے قید کا حکم دیا گیا ہے۔

عدالت نے یہ فیصلے الجزائر میں صدارتی انتخابات کے انعقاد سے صرف دو روز قبل سنائے ہیں۔ان انتخابات میں صدرعبدالعزیز بوتفلیقہ کے جانشین کا انتخاب کیا جائے گا لیکن ملک کی احتجاجی تحریک ان کی مخالفت کررہی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ الجزائری نظام ،بدستور اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے ان انتخابات کا ڈھونگ رچا رہا ہے۔ابھی رائے عامہ کا کوئی جائزہ شائع نہیں ہوا ہے ۔تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ الجزائری ووٹروں کی زیادہ تعداد صدارتی انتخاب سے لاتعلق ہی رہے گی کیونکہ وہ موجودہ نظام کے مخالف ہیں اور اس میں اصلاحات کے لیے ہی الجزائریوں نے فروری میں احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا اور وہ نو ماہ کا وقت گزرجانے کے بعد بھی جاری ہے لیکن ابھی تک یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے