افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان اعتماد سازی کے لیے مغربی قیدیوں کی رہائی کے بدلے امریکہ کی قید سے رہائی پانے والے طالبان رہنما انس حقانی نے کہا ہے کہ ان کی کوشش ہو گی کہ وہ بھی قطر دفتر کی سياسی کوششوں کو جاری رکھيں جس سے افغانستان ميں ديرپا امن کو ممکن بنايا جا سکے اور جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔​

طالبان کی قید سے دو مغربی قیدیوں کی رہائی کے بدلے امریکہ کی جانب سے رہائی پانے والے انس حقانی کا کہنا تھا کہ قطر پہنچنے پر ان کا پُر تپاک استقبال کيا گيا جبکہ قطر ميں طالبان کے سياسی دفتر کے سربراہ مُلا برادر سميت تمام ممبران نے ايک تقريب کا اہتمام کيا جس ميں مستقبل کے متعلق لائحہ عمل پر تبادلہ خيال کيا گيا۔

رہائی کے بعد اپنے پہلے انٹرويو ميں قيد کے حوالے سے انس حقانی کا کہنا تھا کہ 2014 ميں ايک امريکی فوجی کی رہائی کے بدلے جب پانچ طالبان قيديوں کو رہا کيا گيا تو ميں بھی ان سے ملاقات کے لیے دوحہ گيا۔ کيوں کہ رہائی پانے والوں ميں سے ايک مولوی محمد نبی عمری ميرے والد کے بہت قريبی دوست تھے۔ ان سے ملاقات کے بعد واپسی پر امريکيوں نے مجھے گرفتار کر ليا اور افغانستان منتقل کر ديا۔انس حقانی کے مطابق، انہیں کابل ميں ساڑھے آٹھ ماہ جيل ميں گزارنے کے بعد بگرام جيل ميں ڈال ديا گيا جہاں انہوں نے مزيد چار سال گزارے۔

امريکہ اور طالبان کے درميان امن مذاکرات ايک ايسے وقت ميں دوبارہ شروع ہو رہے ہيں جب چند ہفتے قبل دونوں ممالک کے درميان قيديوں کے تبادلے کے نتيجے ميں انس حقانی سمیت 3 طالبان رہنما، ايک آسٹريلوی،اور ايک امريکی پروفیسر جبکہ 10 افغان فوجی رہا ہوئے۔

طالبان اور امريکہ کے درميان گزشتہ ايک سال سے جاری امن مذاکرات صدر ٹرمپ نے اس سال ستمبر ميں اس وقت معطل کر دیے تھے کہ جب طالبان کے ايک حملے ميں ایک امریکی سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

قيديوں کے تبادلے کے نتيجے ميں رہا ہونے والوں ميں حقانی گروپ کے بانی جلال الدين حقانی کے چھوٹے بيٹے انس حقانی بھی شامل تھے۔

انس حقانی کا کہنا تھا کہ انہيں انہیں ایک گھناونی سازش کے تحت سزائے موت سنائی گئی تھی۔ ان کے بقول، انہیں اپنی سزا سن کر انتہائی تعجب ہوا کہ جب انہوں نے کوئی بھی غير قانونی کام نہیں کیا تو پھر اتنی بڑی سزا کس بنياد پر؟

ان کے بقول، ‘ميں تعجب کا شکار ہوں کہ افغانستان ميں ايسے ادارے بھی ہيں کہ جو اپنے شہريوں کو بغير کسی جرم اور بغير شواہد پر سزائے موت تک سناتے ہيں’۔

افغانستان کی بگرام جيل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جيل کی زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی۔ ميں نے بھی دوسرے قيديوں کی طرح بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ان کے مطابق وہ ان تکالیف کو دوہرانا نہیں چاہتے، کيوں کہ افغان حکومت اور امريکہ کو پتہ ہے کہ وہاں قيديوں کے ساتھ کيا سلوک کيا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چار سال کی مسلسل کوششوں کے بعد ايک دن مجھے اور حافظ عبد الرشيد کو بگرام جيل سے ايک الگ مقام پر لے جايا گيا اور پانچ سال کے طويل وقفے کے بعد قيديوں کے تبادلے کے نتيجے ميں، میں اب دوبارہ قطر ميں ہوں۔

انس نے کہا کہ ان کی رہائی کے پيچھے کافی سارے افراد کے علاوہ بہت سارے ممالک نے اہم کردار ادا کيا جس ميں قطر اور پاکستان کا کردار بہت اہم رہا۔

ماہرين کا خيال ہے کہ امن مذاکرات کی ٹيم ميں انس حقانی کی شموليت سے حقانی نيٹ ورک کا کردار مزيد اہم ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ امريکہ اور افغانستان کے درميان امن مذاکرات کی بحالی کے بعد امريکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خليل زاد قطر پہنچ چکے ہيں۔

جبکہ پاکستان نے امن مذاکرات کی بحالی کا خير مقدم کرتے ہوئے اميد ظاہر کی ہے کہ يہ مذاکرات افغانستان ميں دیرپا قیام امن کے لیے مفيد ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے