آج کی بات

میڈیا نے گذشتہ روز تصاویر اور خبریں جاری کیں کہ افغانستان میں قابض فوج کے اعلی کمانڈر جنرل سکاٹ ملر نے اپنے کٹھ پتلی وزیر اسد خالد کے ساتھ مل کر جوزجان میں گیلم جم ملیشیا کے جنگجو کمانڈر جنرل دوستم سے ملاقات کی ۔ دوستم کے دفتر نے میڈیا کو جاری کی کہ اس میٹنگ میں جنرل ملر نے جنرل دوستم کو ان کے لئے بہترین خدمات انجام دینے پر نیٹو تنظیم کا میڈل اور افغان فوجیوں کی شجاعت کا تمغہ دیا ۔

اگرچہ ان جرنیلوں نے میڈیا کو بتایا کہ شمال میں سیکیورٹی پر تبادلہ خیال کرنا ان کی ملاقات کا ایجنڈا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنرل میلر کابل انتظامیہ کے متنازعہ اور شرمناک انتخابات کے مسائل کو اس طرح حل کرنا چاہتا ہے کہ ان کی فرمائش کو بھی قبول کی جائے اور انتشار کا بھی خاتمہ کیا جائے ۔

جنرل دوستم نے ایک ہفتہ قبل ڈاکٹر عبداللہ کی حمایت میں اپنے حریف اشرف غنی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بھی اشرف غنی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور ایک آمر کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے وہ موت کو ترجیح دیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ اششرف غنی کو جان لینا چاہئے کہ ان کے لئے ڈاکٹر نجیب کے وقت سے بھی صورتحال کو زیادہ خراب کردوں گا ۔

اسی وجہ سے قابض فوج کے کمانڈر سکاٹ میلر کٹھ پتلی حکام کے درمیان اختلافات کو کنٹرول کرنے کے لئے دوستم کے گھر گئے اور ان کے ساتھ تصویر کشی کی ۔

تاہم جنرل دوستم کے نام اور کردار سے ہر شخص واقف ہے جو ہزاروں بے گناہ لوگوں کا قاتل ہے، وہ افغانستان کی تاریخ میں ہر حوالے سے ایک مجرم اور بدنام زمانہ شخصیت ہے ، انہوں نے کبھی بھی کسی قسم کے انسانی جرم سے دریغ نہیں کیا ہے، ان کا تازہ ترین شرمناک اور انسانیت سوز مقدمہ ایشچی کا مسئلہ ہے جو اب بھی کابل کی عدالت میں ججوں کی میز پر پڑا ہے لیکن اس کو ہاتھ لگانے اور اس کی سماعت کرنے کا کسی کو اختیار اور جرات ہے اور نہ ہی کوئی ذمہ داری سمجھتا ہے کیوں کہ اس کو سکاٹ میلر جیسے قابض فوج کی آشیرباد حاصل ہے ۔

اس سے حملہ آوروں کے دہرے معیار کا خوب پتہ چلتا ہے کہ وہ ہمارے ملک میں انسانیت کے بڑے مجرم کو تمغہ امتیاز سے نوازتے ہیں لیکن خود پاسفورٹ پر امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے ہیں ۔

جنرل دوستم اپریل 2016 میں افغان نائب صدر کی حیثیت سے امریکہ کا سرکاری دورہ کرنا چاہتا تھا ، لیکن امریکہ نے اس کو اجازت نہیں دی ۔ نیویارک ٹائمز نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے لکھا تھا کہ دوستم انسانی جرائم کا مرتکب شخص ہے اور امریکی قانون ایسے شخص کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔

لیکن آج اسی امریکہ کا فوجی جنرل سکاٹ ملر آتا ہے اور ہمارے ملک میں اسی مجرم دوستم کو اس کے گھر میں نیٹو تنظیم کی جانب سے شجاعت کا تمغہ دیتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دوستم نے ہزاروں انسانوں کو قتل کیا ہے لیکن افغانوں کو قتل کیا ہے اور وہ اس وقت افغانستان میں جارحیت پسندوں کے لئے ملازم کی طرح خدمات انجام دیتا ہے اس لئے امریکہ اور نیٹو کی نمائندگی پر سکاٹ میلر تمغہ دیتے ہیں ۔

حملہ آوروں کے تمام معیارات ایسے دہرے ہیں ، افغان عوام جانتے ہیں کہ قابض قوتیں ان کی اقدار کا تقدس پامال کرتی ہیں لیکن کٹھ پتلیوں کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ قابض دشمن انہیں عارضی طور پر استعمال کر رہا ہے اور اس کے بعد انہیں ذلیل کیا جاتا ہے ۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے