تحریر: قاری حبیب اللہ

شہید ملا عبد المنان آخند اس دور کا ہیرو اور بہادر کمانڈر تھا اگرچہ ان کی بہادری اور کارناموں سے اکثر لوگوں کو پتہ نہیں ہے لیکن اگلی صدی کے مورخین ان ہیروز کے کارناموں کے بارے میں لکھیں گے کہ انہوں نے کس طرح ایک سپرپاور کو شکست دے دی ۔

ملا عبدالمنان اخوند ان ہیروز میں شامل تھا جو امریکہ اور نیٹو کے جدید ترین اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی کے خلاف جنگ کے میدان میں نکل گئے اور کئی برس تک دجالی طاغوت کا بھرپور مقابلہ کیا، ہلمند میں قابض فوجیوں کو منہ توڑ جواب دیا اور ان کے گرد گھیرا تنگ کر کے ان پر ہلاکت خیز حملے کئے اور اللہ کی مدد سے سفاک دشمن کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ۔

آج کل مصنوعی ہیروز کی بھرمار ہیں کچھ لوگ میڈیا اور تشہیر کے چیمپئن بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ فوٹو گرافی اور فلمی شوز کرتے ہیں، لیکن اس دور میں واقعی ہیرو اور بہادر سپاہی ملا عبدالمنان اخوند نے غیرت اور بہادری کے انمٹ نقوش چھوڑ کر نئی نسل کو شجاعت کا جو درس دیا اس پر پوری قوم رہتی دنیا تک فخر کرے گی، وہ شجاعت ، ہمت اور عزم کی علامت اور مزاحمت اور ایمانی قوت کا پیکر تھا، آئیے یہاں ملا عبدالمنان شہید کی زندگی کے آخری دن کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے کہ مرد مجاہد نے اپنی دنیاوی زندگی کا آخری دن کیسے گذارا؟

ملا عبد المنان اخوند کی بہت سی خوبیوں اور خصوصیات میں سے ایک ان کی متحرک طبیعت تھی، وہ ہمیشہ ایک حقیقی اور پیشہ ور فوجی رہنما کی حیثیت سے متحرک رہتے تھے، ہلمند جو افغانستان کا ایک بہت وسیع و عریض صوبہ ہے اور ہر ضلع ایک صوبے کی طرح وسیع رقبہ رکھتا ہے، اضلاع کے درمیان طویل فاصلے ہیں لیکن ملا عبد المنان اخند دشمن کی طرف سے تمام تر خطرات کے باوجود ہلمند میں گشت کرتے تھے ساتھیوں کی خبر لینے کے لئے تمام اضلاع کے دورے کرتے تھے، عوام کی مشکلات حل کرنے کی کوشش کرتے تھے، وہ مجاہدین کی خود رہنمائی کرتے تھے ۔

وہ آج کے مصنوعی جرنیلوں کی طرح نہیں تھے کہ میدان جنگ کے بجائے محفوظ ٹھکانوں میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے بلکہ جنگ کی کمان خود سنبھالتے تھے اور ہر جنگ میں صف اول میں ہوتے تھے وہ انتہائی منظم انداز سے دشمن پر تابڑتوڑ حملے کرتے تھے ہلمند میں برطانوی اور امریکی افواج کو تاریخی شکست دیکر نئی تاریخ رقم کی ۔

ان کے دوستوں کے مطابق شہید ملا عبدالمنان اخوند نے اپنی زندگی کی آخری رات ضلع سنگین میں گزاری، صبح وہ ہلمند کے ایک اور ضلع نوزاد گئے ، جہاں انہوں نے جہادی عہدیداروں سے ملاقات کی، وہاں سے وہ ضلع موسی قلعہ میں پہنچ گئے جہاں پر انہوں نے صوبہ ہلمند کے جہادی کمانڈر مولوی محمد قاسم سے ملاقات کی، دوپہر کے بعد جب وہ جہادی سرگرمیوں کے دوران ضلع سنگین ضلع جانے کا ارادہ کررہے تھے انہوں نے سوکھی روٹی کھائی اور پھر سنگین روانہ ہوگئے، سنگین کے شرافت بازار کے قریب جہادی کمانڈروں سے ملاقات کی، عصر کی نماز باجماعت ادا کی، اس کے بعد انہوں نے کہا: ” بہت دنوں سے کپڑے نہیں بدلے ہیں، انہوں نے جا کر غسل کیا اور صاف کپڑے پہن کر ساتھیوں سے رخصت لی، مغرب کی نماز نوزاد رود کے علاقے میں پڑھی، انہوں نے ضلع نوزاد میں رات گزارنے کا ارادہ کیا، نماز پڑھنے کے بعد جب روانہ ہوئے تو دس بج کر چھ بجے ڈرون طیارے نے ان کی گاڑی پر حملہ کیا اور وہ مرد مجاہد، متحرک اور مخلص مجاہد نے جام شہادت نوش کر کے اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا ، انا للہ و انا الیہ راجعون

موسم خزاں کے چھوٹے دن ، ہلمند کے ضلع سنگین ، نوزاد اور موسیٰ قلعہ کے مابین طویل فاصلے اور تمام تر سیکورٹی خطرات اور دشمن کی کڑی نگرانی کے باوجود دن رات متحرک رہنا ایک امیر اور کمانڈر کے لئے بہادری اور شجاعت کی علامت ہے ۔

اس طرح جدوجہد کرنا اور مخلصانہ ذمہ داری انجام دینا صرف ایماندار اور مخلص مجاہدین کا کام ہے جو تمام مادی وسائل اور دنیا سے بے نیاز ہو کر اللہ کی محبت میں سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں ایسے لوگ اللہ کے دین کی حفاظت کرتے ہیں اور قوم و ملک کا نام روشن کرتے ہیں ۔

ان جیسے متحرک اور نہ تھکنے والے مجاہدین کے کردار کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کی طاغوتی قوتیں انگشت بدندان رہ گئیں اور افغانستان میں شکست کا اعتراف کر کے مذاکرات کی میز پر آگئیں، ایسے مجاہدین کے نام سے سننے سے بھی دشمن لرزتا ہے اور اس پر خوف طاری ہوتا ہے، ملا عبدالمنان شہید نے دشمن کا تعاقب جاری رکھا اور پورے ہلمند سے دشمن کا صفایا کر کے لشکرگاہ تک محدود کر دیا، وہ سد سکندری کی طرح دشمن کی راہ میں کھڑے ہوکر مجاہدین کو حوصلہ دیا اور ایمانی قوت سے دشمن کو شکست دیکر اپنے اسلاف کی تاریخ کی لاج رکھی اور اپنے پیروکاروں کو اپنے مشن پر کاربند رہنے کا سبق دیا ۔ ہمیں اپنے ان حقیقی ہیروز پر فخر ہے اللہ تعالی ان کی انتھک جدوجہد اور قربانیاں قبول فرمائے اور ان کے پیروکاروں کو ان کے مشن پر عمل درآمد کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ان کی جدوجہد آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے، تاریخ ان کی بہادری اور قربانی کبھی بھی فراموش نہیں کرے گی ۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے