ایودھیا میں ہندو انتہاپسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت کو 27 سال ہو گئے لیکن مسلمان آج بھی انصاف کے طلب گار ہیں۔

سولہویں صدی میں تعمیر ہونیوالی بابری مسجد کو1992ء میں ہندو انتہاپسندوں نے شہید کیا تھا۔ یہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے تعمیر کرائی تھی 27ویں برسی پر بھارت میں مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرے کئے۔ اور یوم سیاہ منایا ہندو انتہاپسندوں کا دعویٰ تھا کہ بابری مسجد ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کی گئی تھی اسی تنازعے کے باعث 1859ء میں انگریز حکومت نے بابری مسجد کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اندرونی حصہ مسلمانوں کیلئے اور بیرونی حصہ ہندوؤں کیلئے مختص تھا۔ جب 1949ء میں ہندوؤں نے دعویٰ کیا کہ مسجد سے مورتی برآمد ہوئی ہے تو فسادات پھوٹ پڑے اور بھارتی حکومت نے مسجد کو بند کر دیا۔ ہندوؤں نے 1984ء میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی مہم چلائی۔ جب 1991ء میں اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت آئی تو 6 دسمبر 1992ء کو انتہاپسند ہندوؤں نے مسجد پر دھاوا بول دیا جس کے بعد بھارت میں ایک بار پھر ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جس میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ، شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اور ریل کے ایڈوانی سمیت 49افراد کیخلاف مقدمات درج ہوئے تھے شرکاء نے سیاہ کپڑے پہن رکھے تھے مظاہرین نے لبرہن کمشن کی رپورٹ پر پارلیمنٹ میں بحث کا مطالبہ کیا۔

اُدھر 9 نومبر کو سپریم کورٹ کی جانب سے دئے گئے فیصلے نے رواں سال کی برسی کو اور زیادہ اہم بنا دیا ہے۔ عدالت نے خود اپنے فیصلے میں یہ دہرایا کہ مسجد کی تعمیر کے لئے کسی مندر کو نہیں توڑا گیا اور یہ کہا کہ 1949 میں مسجد کے اندر مورتیاں رکھنا اور 1992 میں مسجد کو ڈھانا غیرقانونی عمل تھا۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود عدالت نے یکطرفہ طور پر متنازعہ زمین کو رام مندر کی تعمیر کے لئے ہندؤوں کو دینے کا فیصلہ کر دیا۔ اس فیصلے نے ایک طرح سے بابری مسجد پر دہشت گردانہ حملے کو قانونی جواز فراہم کر دیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے مجرمانہ گروہ کسی بھی مذہبی قوم کی عبادتگاہوں پر اپنا دعوی کر سکتے ہیں اور اس پر زبردستی قبضہ بھی کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے