بھارت کی شمالی ریاست اُترپردیش میں عصمت ریزی کا شکار تیئیس سالہ لڑکی کو پانچ اوباشوں نے مٹی کا تیل انڈیل کر آگ لگا دی ہے جس سے اس کا نوّے فی صد جسم جھلس گیا ہے اور وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔
یہ افسوس ناک واقعہ جمعرات کی صبح اُترپردیش کے ضلع اناؤ میں پیش آیا ہے۔پولیس کے مطابق متاثرہ لڑکی اناؤ میں عدالت میں پیشی کے لیے جارہی تھی اور ملزموں نے اس پرٹرین پر سوار ہونے سے پہلے ہی مٹی کا تیل انڈیل دیا اور آگ لگادی۔
اس لڑکی کو لکھنؤ کے سول اسپتال میں منتقل کردیا گیا ہے جہاں اس کے علاج پر مامور ڈاکٹر ڈی ایس نیگی نے بتایا کہ اس کی حالت تشویش ناک ہے۔
ضلع اناؤ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس وکرانت ویر نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’’لڑکی کے بیان کے مطابق اس کو پانچ افراد نے آگ لگائی تھی۔ان میں اس کی عصمت ریزی کرنے والا ایک ملزم بھی شامل ہے۔‘‘
اُترپردیش پولیس نے ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ ان تمام پانچوں ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔پولیس کے ریکارڈ کے مطابق اس لڑکی نے مارچ میں اناؤ پولیس کو مقدمے کے اندراج کے لیے ایک درخواست دی تھی اور اس میں یہ کہا تھا کہ اس کی 12 دسمبر 2018ء کو بندوق کی نوک پر عصمت ریزی کی گئی تھی۔
لکھنؤ میں پولیس افسر ایس کے بھگت نے بتایا کہ اس کی زبردستی عزت لوٹنے والے شخص کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا اور وہ گذشتہ ہفتے ہی ضمانت پر رہا ہوا تھا۔
واضح رہے کہ اُترپردیش آبادی کے اعتبار سے بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن اس صوبے میں عورتوں سے آئے دن سنگین جرائم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور عورتوں سے بدسلوکی کے واقعات کے اعتبار سے اس صوبے کا ریکارڈ بہت ہی بُرا ہے۔سال 2017ء میں اس صوبے میں عورتوں کی عصمت ریزی کے 4200 کیس رپورٹ ہوئے تھے۔
اترپردیش میں وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) ہی کی حکومت ہے۔اس حکومت کو جولائی میں زنا کے ملزم ایک رکن اسمبلی کو تحفظ دینے پر حزب اختلاف کے گروپوں نےکڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اسی ہفتے جنوبی شہر حیدر آباد میں ایک ستائیس ویٹرنری ڈاکٹر کو عصمت ریزی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔اس واقعے کے خلاف بھارت کے شہروں میں سخت احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور مظاہرین نے عورتوں سے زیادتی کے ملزموں کو کڑی سزائیں دینے کا مطالبہ کیا تھا۔عورتوں اور کم سن لڑکیوں سے عصمت ریزی کے واقعات میں اضافے کے بعد سیاسی گروپوں عدالتوں سے ایسے مقدمات کو جلد نمٹانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔