ہفتہ وار تبصرہ

وطن عزیز افغانستان میں پھیلا ہوا بحران ہر شعبے میں عروج کو پہنچا ہے، اگر ایک طرف ملک مقبوضہ ہے، مؤمن ملت نے اپنی حکمرانی اور سرزمین کے اختیارات کھو دی ہے۔  دوسر جانب معاشی، ثقافتی، اخلاقی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں حالت میں بہت پریشان کن اور مزید خرابی کی جانب  رواں دواں ہے۔

شہروں اور دیہی علاقوں میں بیروزگاری بڑھ چکی ہے، فقر اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔معیشت اور سرمایہ اکثر ان افراد کے پاس ہے، جو جارحیت کی حمایت سے سیاسی اقتدار اور مالی قوت کے مالک ہیں۔ انہوں نے معیشت اور پیدوار کے ذرائع پر قبضہ کرلیا ہے۔ قومی اثاثوں کو چوری،زمین کو غصب، بینکوں کو لوٹنے اور غبن  و استحصال کے ذریعے مظلوم اور غریب ملت کی ہڈیوں کو توڑرہے ہیں۔اس طریقے سے محدود غلاموں کے سرمایہ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔سرمایہ کو بیرونی ممالک منتقل کیا جارہا ہے ۔اس برعکس عوام میں فقر اور غربت کی سطح بڑھ رہی  ہے اور قومی معیشت کو نقصان  اٹھارہا ہے۔

تجارت کے شعبے میں حاکم رژیم اتنا بےبس اور بےاعتماد ہے کہ ملک کے تازہ میوہ جات کے لیے مارکیٹ کا انتظام تک نہیں کرسکتا۔افغانستان ایک زرعی ملک ہے اور عوام کی اکثریت کی گزربسر باغات اور کھیتوں کی پیدوار سے جاری ہے۔امسال تربوز، انار ، انگور وغیرہ میوہ جات کی پیداوار اس وجہ سے ضائع ہوئیں،کہ ان کی فروخت اور مارکیٹ تک رسائی کےلیے کوئی منصوبہ سازی نہیں کی گئی تھی۔

اگر ثقافت اور اخلاق کے شعبے پر نگاہ ڈالی جائے، تو ایک جانب چند تعلیمی مراکز، میڈیا اور نام نہاد سماجی تنظیموں کے ذریعے افغان اسلامی ثقافت کی بدنامی اور تباہی کی جدوجہد کی جارہی ہے۔ تو دوسری طرف وقتافوقتا حکام کی اخلاقی رسوائیوں کے ایسی اسناد سامنے آرہے ہیں، جو ملک بھر کی حیثیت کو داغدار بناتا ہے۔ ثقافتی جارحیت اور بیروزگاری کی وجہ سے نوجوان نسل کے اخلاق متاثر ہورہے ہیں،ان کےحافظے سے حقیقی معیارات نکل جارہے ہیں اور اجنبی ثقافت کے زیر اثر آ رہے ہیں ۔

امریکا کی زیرحمایت  کٹھ پتلی انتظامیہ اگر ماضی میں صرف کرپشن میں عالمی سطح پر پہلے مقام پر سمجھاجاتا، اب دیگر شعبوں میں بھی اس لقب کو اپنا لیاہے۔مثال کے طور پر ایک سروے میں کہتے ہیں کہ دارالحکومت کابل شہر کے آب وہوا کے شرائط اتنے خراب ہوچکے ہیں، جو عالمی سطح پر آلودہ ترین دارالحکومت سمجھا جاتا ہے۔

درج بالا مصائب کے علاوہ سیاسی بحران، بےچینی اور آئے روز خراب ہونیوالی حالت وہ حقیقی حقائق ہیں، جن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ان تمام مصائب کی اصل وجہ  یہ ہے کہ ہماری ملت، ملک اور حکومتی نظام کو اپنے حقیقی مسیر  اور قالب سے ہٹایا جاچکا ہے۔ افغان قوم مسلمان ملت ہے اور اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کی دینا و آخرت کی خوشنودی اسلامی نظام میں لپٹی ہوئی ہے۔  مگر موجودہ غلام حکمرانوں نے افغان ملت پر سیاسی، معاشی،ثقافتی اور زندگی کے تمام شعبوں میں اجنبی معیارات کو لاگو کیے ہیں۔

امارت اسلامیہ کی رائے یہ ہے کہ اگر مسلمان ملت کے دل کی صدا کو لبیک کہا جائے۔ان کے مرضی اور ارادے کے مطابق ایک آزاد، خودمختار اور اسلامی نظام قائم ہوجائے۔اسلامی عدالت نافذ ہوجائے۔ تجارت،تعلیم،ثقافت، قضاء اور زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی قوانین نافذ ہوجائے، تو یقین کیجیے، کہ موجودہ المیہ ختم ہوجائیگی  اور افغان ملت پائیدار سعادت، وقار اور خوشحالی کا ضامن ہوجائیگی۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے