اسرائیلی استغاثہ کی جانب سے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی سے متعلق تین کیسوں کی تفصیلات پیر کے روز پارلیمنٹ میں پیش کی گئیں۔ اس حوالے سے 333 گواہوں کے نام موجود ہیں۔ ان میں نیتن یاہو کے دولت مند دوست احباب اور سابق معاونین شامل ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف بدعنوانی کے تین مختلف کیسوں میں رشوت خوری ، فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات سے متعلق فردِ جرم سرکاری طور پر پارلیمنٹ کو ارسال کر دی گئی ہے۔ اس کے خلاف اپیل اور مقدمے سے استثنا کے لیے اسرائیلی وزیراعظم کے پاس 30 دن کا وقت ہے۔

نیتن یاہو جو اسرائیل پر تقریبا ایک دہائی سے حکومت کر رہے ہیں، انہوں نے کسی بھی غلط کام کے ارتکاب کی تردید کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ عدلیہ کی جانب سے "انقلاب” کی کوشش کا شکار ہوئے ہیں اور عدلیہ مقبولیت کے حامل دائیں بازو کے سربراہ کو معزول کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے ملکی قانون نیتن یاہو کو اس بات کا پابند نہیں بناتا کہ وہ فرد جرم عائد کیے جانے پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ نیتن یاہو کے خلاف مقبوضہ بیت المقدس کی ایک عدالت میں تین رکنی بینچ کی نگرانی میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ تاہم مقدمے کے آغاز کی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق فرد جرم میں تین سو سے زیادہ گواہوں کے ہونے کا مطلب ہے کہ مقدمہ کئی برس جاری رہے گا۔ ادھر نیتن یاہو نے گواہوں کی طویل فہرست کا تمسخر اڑاتے ہوئے ٹویٹر پر کہا ہے کہ "اگر الزام درست ہو تو 333 گواہوں کی ضرورت نہیں رہتی ،،، اور اگر الزام غلط ہو تو 333 گواہان بھی کوئی فائدہ نہیں دیتے”

ایک مقدمے کے مطابق نیتن یاہو نے غیر قانونی طور پر انتہائی قیمتی تحفوں کا مطالبہ کیا اور پھر انہیں قبول کیا۔ دوسرے مقدمے کے مطابق نیتن یاہو نے ایک کثیر الاشاعت اسرائیلی اخبار کے مالک سے وعدہ کیا کہ وہ مذکورہ اخبار کے حریف اخبار پر دباؤ ڈالیں گے۔

اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اسرائیلی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی بیزیک کو تقریبا 1.8 ارب اسرائیلی شیکل (50 کروڑ ڈالر) کے فوائد پہنچائے۔ اس کے مقابل کمپنی کے سابق سربراہ کے زیر انتظام ایک اخباری ویب سائٹ نیتن یاہو کے حق میں مثبت کوریج کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے