عراق میں انسانی حقوق کے کمیشن نے اتوار کی شام بتایا ہے کہ کمیشن کی ٹیم کی جانب سے بغداد میں سرکاری انٹیلی جنس کے زیر انتظام ایک ٹھکانے کے دورے کے دوران طبی معاونین، یونیورسٹی طلبہ اور سرکاری ملازمین کو زیر حراست دیکھا گیا۔ کمیشن نے واضح کیا کہ ان افراد کو مظاہروں کے پس منظر میں حراست میں لیا گیا ہے۔ کمیشن نے سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام زیر حراست افراد کے مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جائے۔

عراق میں یکم اکتوبر سے مختلف شہروں میں حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکورٹی فورسز اور ملیشیاؤں نے عوامی احتجاج کے ساتھ بھرپور طاقت سے نمٹنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں تقریبا 400 مظاہرین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جب کہ ہزاروں زخمی ہو گئے۔ اس دوران درجنوں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔

عراقی مظاہرین نے ابتدا میں روزگار کے مواقع اور بنیادی خدمات کی فراہمی بہتر بنانے اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں یہ صورت حال غیر معمولی شکل اختیار کر گئی اور عوامی مطالبات میں بدعنوانی کے مورد الزام ٹھہرائی گئی حکومت اور سیاسی اشرافیہ کی رخصتی کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا۔ سیکورٹی فورسز نے احتجاج کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے واسطے براہ راست فائرنگ اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں جانی نقصان سامنے آیا۔

دوسری جانب جنوبی صوبے ذی قار میں کئی روز کی کشیدگی اور خون ریز پرتشدد کارروائیوں کے بعد عراقی فوج میں "الرافدین آپریشنز” کے کمانڈر میجر جنرل جبار الطائی نے صوبے کی سیکورٹی کی ذمے داری سنبھال لی ہے۔ صوبے کے مرکز ناصریہ شہر میں صرف جمعرات اور جمعے کے دوران 47 مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے۔ قبائل سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد نے "بیرونی عناصر” کی دراندازی کے اندیشے کے سبب شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کی سیکورٹی کو یقینی بنا لیا۔

حالیہ شورش زدہ حالات 2014 میں عراق اور شام کی وسیع اراضی پر داعش تنظیم کے جنگجوؤں کے کنٹرول کے بعد سے عراق میں سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔

عراقی مظاہرین کو جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ایران نواز حکومت کا سامنا ہے جس پر عراق کی تیل کی دولت لٹانے کا الزام ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے