ایران میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو گنا اضافے کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران پولیس اور پاسداران انقلاب نے پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جس کے نتیجے میں سیکڑوں مظاہرین ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایران کے ایک شہر’شہریار’ میں پولیس کے وحشیانہ حملوں میں 40 مظاہرین کو موت کےگھاٹ اتار دیا گیا جب کہ 330 زخمی ہونے کے بعد اسپتالوں میں داخل کیے گئے ہیں۔

خیال رہےکہ ایرانی رجیم کے مظالم سے تنگ عوام نے گذشتہ ماہ اس وقت حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا جب ایران میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ کردیا گیا۔

ایرانی حکومت نے مظاہرین کو ایک دوسرے سے رابطے سے محروم رکھنے کے لیے انٹرنیٹ بند کردیا۔ اب بھی ایران کے صوبہ بلوچستان اور اھواز شہروں میں انٹرنیٹ تک رسائی بدستور معطل ہے۔

ایرانی اصلاح پسندوں کی مقرب فارسی نیوز ویب سائٹ ‘کلمہ’ کے مطابق احتجاج کے پہلے تین ایام میں شہریار شہر کے اسپتالوں میں 40 مظاہرین کی لاشیں لائی گئیں۔ امام حسین اسپتال لائی گئی لاشوں میں بیشتر نوجوان لڑکوں اور خواتین کی تھیں۔

رپورٹ کے مطابق اس شہر میں حکومتی فورسز کے وحشیانہ حملوں میں زخمی ہونے والے 330 شہریوں کو اسپتالوں میں لایاگیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ پولیس نے مظاہرین کو دانستہ طورپر نشاہ بنایا تاکہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کے ذریعے لوگوں کو احتجاج سے روکا جاسکے۔ پولیس کی طرف سے براہر است فائرنگ کے دوران شہریوں کے سروں میں گولیاں مار گئیں۔ لاٹھی چارج کے دوران وحشیانہ تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں مظاہرین کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ بعض مظاہرین کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی جب کہ بعض کی پسلیاں اور ٹانگیں توڑی گئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسپتالوں میں لائےگئے زخمیوں میں سے پہلے روز 50 اور دوسرے روز 74 زخمیوں کی سرجری کی گئی۔ تیسرے روز امام الحسین اسپتال پر پاسداران انقلاب کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور وہاں پر موجود تمام ازخمیوں کو گاڑیوں میں ڈال کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔ ایرانی پولیس نے نہ صرف زخمیوں کو اٹھا لیا بلکہ اسپتال کے عملے کو یرغمال بنایا اور ان کا طبی سامان بھی قبضے میں لے لیا گیا۔ ڈاکٹروں کےفون چھین لیے گئے اور زخمی ہونے والےمظاہرین کی تصاویر بھی قبضے میں لے لی گئیں۔

ایران کے سرکاری عہدیدار ملک میں احتجاج کے دوران ہلاکتوں کی اصل تعداد ظاہر کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایرانی رجیم پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ ہلاک ہونے والے مظاہرین کی اصل تعداد کو چھپا رہی ہے۔

ایرانی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پولیس اور پاسداران انقلاب کے وحشیانہ کریک ڈائون کے نتیجے میں ساڑھے چارسو مظاہرین ہلاک اور سات ہزار کو گرفتار کرکے نامعلوم مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

ایرانی اپوزیشن نے مظاہرین کی ہلاکتوں کی تمام تر ذمہ داری سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پرعاید کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے