تحریر: موسی فرہاد
لبنانی نژاد امریکی خاتون رولا غنی جو اشرف غنی کی اہلیہ ہے، وہ ان دنوں کے دوران امریکہ میں ہیں، وہاں ان کی مصروفیات کیا ہیں اور کن مقاصد کے لئے گئی ہیں، اس حوالے سے قارئین کی خدمت میں عرض کروں گا لیکن پہلے خاتول اول کے لقب اور عقیدت کے بارے میں چند گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔
اشرف غنی اگرچہ کابل انتظامیہ کے نصف حصے کے سربراہ ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے حامیوں کو خیاط کہا گیا ہے، ان کے نزدیک رولا غنی افغانستان کی خاتون اول ہیں، اگرچہ گلمرجان اور اس کے حامیوں نے ابھی تک سرکاری طور پر یہ اعزاز تسلیم نہیں کیا ہے کیونکہ ان کا موقف ہے کہ خاتون اول کا اعزاز آدھے حکمران کو نہیں دیا جاسکتا ۔
بہرحال رولا غنی افغانستان کی تاریخ کی پہلی غیر مسلم خاتون ہیں جو عیسائیت کے مذہب پر قائم ہیں اور ان کے عمل اور تاثرات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ صرف ایک نام نہاد عیسائی نہیں بلکہ شعوری طور پر اس منسوخ دین کی پیروکار اور دوسروں کو بھی عیسائی بنانا ان کے مشن کا حصہ ہے ۔
سن2014 میں جب اشرف غنی انتخابی مہم میں مصروف تھے، رولا غنی نے سی بی ایس ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا “مجھے خوشی ہے کہ اشرف غنی اب اسلام سے زیادہ عیسائیت سے محبت کرتے ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ ” جب میں چرچ جاتی ہوں تو وہ میرے ساتھ چلتے ہیں، رولا نے مزید کہا “اگر لوگ کچھ بھی کہتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اشرف غنی اب مضبوط مسلمان نہیں رہے ہیں ، اب وہ عیسائیت کے بہت قریب ہیں ۔
اسی طرح نیٹ ورک انفارمیشن ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے رولا غنی نے کہا “مجھے اپنی عیسائیت پر فخر ہے۔” انہوں نے مزید کہا ، میرے خیال میں دباؤ کی وجہ سے افغان خواتین مسلمان ہیں کیوں کہ ان کو کوئی دوسرا انتخاب نہیں دیا گیا ہے، رولا غنی کے مطابق اگر ان کے سامنے عیسائیت کی اچھی تشریح کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ نصف سے زیادہ افغان خواتین عیسائیت قبول کریں گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خواتین کی آزادی کی بات کرتے ہیں اور آزادی اسلام سے عیسائیت میں زیادہ ہے ۔
نیٹ ورک انفارمیشن ویب سائٹ کے مطابق جس نے مسز رولا کے ساتھ خصوصی انٹرویو کیا تھا، اس نے بتایا ہے کہ دس سالوں سے وہ وسطی اور شمالی افغانستان میں انجیلی بشارت کے گروہوں (عیسائی مبلغین) کو براہ راست اور بالواسطہ مدد فراہم کررہی ہے تاکہ افغانستان میں خواتین کو سمجھائیں کہ عیسائیت میں ایسی کوئی بری چیز نہیں ہے جس طرح ملاؤں نے اس کو بدنام ہے ۔
رولا غنی نے 2015 میں فرانسیسی نیوز ایجنسی کو انٹرویو کے دوران اس فرانسیسی قانون کی برملا حمایت کرنے کا اعلان کیا جس میں مسلم خواتین پر حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔
انہوں نے کہا کہ “میں خواتین سے کہتی ہوں کہ آپ کو اس پنجرے [حجاب] سے جان چھڑانا چاہئے اور آپ کو حجاب کی بجائے تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے امریکہ میں پیس انسٹی ٹیوٹ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو افغانستان میں افغان کمیونٹی کا حصہ بننے کا حق ہے لیکن انہیں لوگوں پر اپنا نظریہ مسلط کرنے کا حق نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ طالبان اب بھی عوام پر اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خواتین ناقص العقل ہیں ۔
انہیں کیا معلوم ہے کہ حجاب دین اسلام کا فرضی حکم ہے جس پر تنقید اور اس کی توہین اسلامی اور افغانی تہذیب کی توہین کے مترادف ہے، خواتین کو ناقص العقل کسی عالم یا طالبان کی بات نہیں بلکہ پیغمبر اسلام کی حدیث ہے جس کی تفسیر اور تشریح علماء کرام کرتے ہیں لیکن چونکہ رولا غنی اس پر تنقید کرتی ہیں اور طالبان کا ذاتی نظریہ سمجھتی ہیں لیکن حقیقت ہے کہ رولا غنی کو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت ہے اس لئے وہ اسلامی شعائر اور تہذیب پر تنقید کرتی ہے ۔
مذکورہ بالا سارے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں رولا غنی ایک ایسی غیر مسلم خاتون ہے جو اس ملک کے 99 فیصد مسلم آبادی کی تہذیب سے نفرت کرتی ہے اور اس کی توہین کرتی ہے کیونکہ اس کا مذہب اور ثقافت افغان عوام کے مذہب اور تہذیب سے متصادم ہے ۔
امریکہ میں رولا غنی کی سیاسی لابنگ :
ٹرمپ اور ان کی حکومت کی جانب سے حال ہی میں کابل انتظامیہ خاص طور پر اشرف غنی کے ساتھ تعلقات منقطع ہو گئے اس کے بعد رولا غنی کو امریکہ بھیجا گیا ۔
مختصر یہ کہ امریکہ میں اشرف غنی کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے، اقتدار میں رہنے کے لئے اشرف غنی کو امریکہ کی مضبوط حمایت کی ضرورت ہے ، انہیں امریکہ میں سیاسی لابنگ کے لئے کوئی ایسا شخص درکار تھا جسو امریکی حکام کی ذہنیت دوبارہ بنانے کی کوشش کریں ۔
رولا غنی کو اسی مقصد کے لئے بھیجا گیا ہے، اس لئے وہ ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں جہاں وہ مناسب اور غیر مناسب اظہار خیال کرتی ہیں، وہ افغانستان کی صورتحال سے باخبر امریکیوں کو مختلف طریقوں سے ورغلانے کی کوشش کررہی ہیں ، انہوں نے 15 نومبر کو امریکہ کے پیس انسٹی ٹیوٹ (یو ایس آئی پی) کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورتحال کے بارے میں جس طرح کی خبریں پھیلائی جارہی ہیں وہ سچ نہیں ہے، ان کے بقول ایسی خبروں کی اشاعت سے افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کی قربانی رائیگاں جانے کا خدشہ ہے ۔
انہوں نے کہا “طالبان افغانستان کے آدھے حصے پر ہرگز حاکم نہیں ہیں، وہ صرف 12 اضلاع پر کنٹرول رکھتے ہیں جبکہ افغانستان کے تمام 364 اضلاع ہیں ۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماسکو اور دوحہ میں ہونے والی کانفرنسوں میں کوئی ایسا شخص شامل نہیں تھا جو افغانستان کی نمائندگی کر سکتا تھا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسی کانفرنسیں امن کے لئے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کے لئے منعقد کی جاتی ہیں ۔
انہوں نے کہا “امن اس وقت آسکتا ہے جب بین الافغان الفاظ کے بجائے افغانوں کی زیرقیادت اور ملکیت کے الفاظ استعمال کئے جائیں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی خبریں جو حقائق کے منافی اور جھوٹ پر مبنی ہیں جو صرف لابنگ کے لئے ہیں، چونکہ افغانستان میں طالبان کا کنٹرول 60 فیصد سے زیادہ ہے ، اب یہ بات امریکہ اور مغرب کو بھی معلوم ہے، کیونکہ یہ حقائق ہر سال مغربی سروے ایجنسیوں کی جانب سے شائع ہوتے ہیں بی بی سی نے رپورٹ شائع کی ہے جس میں تصدیق کی گئی ہے کہ 70 فیصد سے زیادہ علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے ۔
رولا کا کہنا ہے کہ صرف 12 اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہے جبکہ طالبان اب 60 اضلاع پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ جن علاقوں میں وہ سرگرم ہیں یا جہاں ان کا اثر و رسوخ ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں، اس حقیقت کی تصدیق بین الاقوامی تحقیقی اداروں اور آزاد میڈیا نے کی ہے ۔
چنانچہ اشرف غنی نے کرسچن اہلیہ رولا غنی کو صرف اس لئے واشنگٹن بھیج دیا گیا ہے کہ وہ امریکہ میں صرف غنی کے لئے لابنگ کریں اور ان سے متعلق امریکی حکام کی منفی سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں، تاکہ ایک بار پھر انہیں افغان قوم پر مسلط کیا جائے لیکن ان کوششوں کے مثبت نتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔
بشکریہ الامارہ ویب سائٹ