آج کی بات

 

کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے گذشتہ روز کابل میں خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایک کمزور حکومت کے ساتھ ان کی جنگ نہیں ہے، وہ کبھی بھی طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے ۔

عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی تقریب سے یہ خطاب کیا جو (ویمن پیس کانفرنس) کے نام سے منعقد کی گئی تھی، انہیں اس موقع پر امن اور سفارت کاری کی نرم زبان کا استعمال کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے سفارتی زبان کی بجائے فلمی اداکار جیسے دھونس دھمکیوں کا لہجہ استعمال کیا ۔

نہ صرف اشرف غنی بلکہ اس کے ارد گرد بیٹھے تمام حلقہ بگوش غلام ایسے ہی غیر سنجیدہ اور غیر فہمیدہ ہیں اسی وجہ سے وہ اب زوال کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں، بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے، اور ملک کے اندر اپنی حکومت میں بھی ہر کسی کے ساتھ وہ دست و گریبان ہیں، کبھی کسی قوم کی توہین کی بات کرتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں ۔

اب امارت اسلامیہ کو امن ، مذاکرات اور افغانستان کے مستقبل کی واحد واضح قوت سمجھا جاتا ہے ، خطے اور دنیا کے تمام ممالک اس کے ساتھ اسی لحاظ سے تعلقات استوار کرتے ہیں، کابل انتظامیہ کی مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی امارت اسلامیہ کے ساتھ ہم آہنگی رکھتے ہیں اور اس کو واقعتا ایک حقیقی قوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، ان حالات میں کابل انتظامیہ کے حکام غیر ضروری طور پر ہاتھ پاوں مارنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کی ساکھ اور حیثیت کو مزید دھچکہ لگے گا ۔

کابل انتظامیہ کے کم باشعور حکام کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر آپ امریکی جارحیت کے خلاف افغان عوام کے اس حقیقی جہاد کو طالبان کی تشدد کارروائیوں سے تعبیر کرتے ہیں تو آپ یہ بتائیں کہ آپ اور قابض امریکی فوجی ہر روز ظالمانہ فضائی حملے کرتے ہیں، ایک ماہ میں 11 سو بم برساتے ہیں، مفاد عامہ کے حامل مقامات، مساجد، مدارس ، بازاروں ، گاؤں کے مکانات ، کلینکوں اور دیگر عوامی املاک کو نشانہ بناتے ہیں، کرپشن اور بدعنوانی کو فروغ دیتے ہیں، داعش کو پروان چڑھاتے ہیں ان جرائم کو کیا نام دیتے ہیں ؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان مظالم کے ذریعے آپ افغان عوام پر حکومت کریں گے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ قابض قوتیں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گی؟ کیا وہ آپ کو ہمیشہ محفوظ رکھیں گی؟ کیا آپ افغان مسلم قوم کا قتل عام اور ان پر ظلم و ستم جاری رکھیں گے؟

اگر اس طریقے سے کامیابی حاصل کی جا سکتی تھی تو دو دہائیوں کے دوران آپ جیت جاتے، آج اس شرمناک صورتحال سے دوچار نہ ہوتے، آپ کو سبکی نہ ہوتی، آج آپ حواس باختہ نہ ہوتے، اور سفارت کاری کے موقع پر فلمی اداکار کی زبان استعمال نہ کرتے ۔

آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ سفارت کاری اور جنگ کے تمام مواقع ضائع کر چکے ہیں، آپ کے دن گنے جا چکے ہیں اب وہ وقت قریب ہے کہ آپ قوم کی عدالت اور انصاف کے کٹہرے میں احتساب کا سامنا کریں گے، وماذالک علی اللہ بعزیز

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے