*سکھاتا ہے سب کچھ*
_مدینہ مدینہ_
اَللہ تعالیٰ کی ’’رحمتوں‘‘ کا مرکز ’’مدینہ مدینہ‘‘… بیوقوف لوگ سکھاتے ہیں کہ… صبح اُٹھتے ہی یہ معلوم کرو کہ… آج کا دن کیسا ہوگا… ’’مدینہ مدینہ‘‘ نے سکھایا کہ… صبح اُٹھتے ہی کہو… یا اللہ! آج کے دن کی تمام ’’خیریں‘‘ عطاء فرما… اور آج کے دن کے تمام شرور سے بچا… ستارے خود مخلوق … وہ کسی کی قسمت کیا بنائیں گے؟… ہاتھ کی لکیریں کبھی سیدھی، کبھی ٹیڑھی… زائچے، عدد اور بُرج… کسی کے قبضے میں ہماری قسمت نہیں… پتھر، انگوٹھیاں اور ہیرے… سب مٹی کے مختلف رنگ… ان سب کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ… وہی ہر خیر اور ہر شر کو لانے اور ہٹانے والا… ’’مدینہ مدینہ‘‘ نے اپنے ماننے والوں کو… نہ وہم میں الجھایا… نہ شک میں گرایا… بلکہ سیدھا سیدھا اللہ تعالیٰ سے ملایا… اور ایسے ایسے راز بتائے کہ دنیا بھی سنور جائے… اور آخرت بھی بن جائے… رات کو ایک حدیث شریف کی شرح دیکھ رہا تھا… دل جھوم اُٹھا… حدیث قدسی ہے… یعنی حدیث میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے… روایت ابو دائود کی ہے… راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں… حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا:
یقول اللّٰہ انا ثالث الشریکین ما لم یخن احدھما صاحبہ، فاذا خان احد ھما صاحبہ خرجت من بینھما
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: میں دو شریکوں میں تیسرا ہوتا ہوں، جب تک کہ ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہ کرے… پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ خیانت کرے تو میں اُن کے درمیان سے نکل جاتا ہوں۔
سبحان اللہ… تجارت کا ایسا اصول اور راز سمجھا دیا کہ… جس میں نفع ہی نفع… فائدہ ہی فائدہ… اور کامیابی ہی کامیابی ہے… فرمایا کہ دو مسلمان کسی تجارت یا کام میں آپس میں شراکت کرتے ہیں تو… میں ’’اللہ تعالیٰ‘‘… اُن کے ساتھ ہوجاتا ہوں… حفاظت کے لئے… برکت کے لئے… کامیابی کے لئے، ترقی کے لئے… اور رہنمائی کے لئے… ایک اور روایت میں فرمایا:
یداللّٰہ علیٰ الشریکین مالم یتخاونا
اللہ تعالیٰ کا ہاتھ دو شریکوں پر ہوتا ہے… جب تک کہ وہ آپس میں خیانت نہ کریں… جب کسی تجارت، کسی سودے، کسی کام میں… اللہ تعالیٰ خود شریک ہوں تو اس میں بھلا نقصان ہوسکتا ہے؟ واضح ارشاد فرمایا کہ:
انا ثالث الشریکین
دو شریکوں کے ساتھ تیسرا میں ہوتا ہوں… اور میں اُس وقت تک اُن کے ساتھ رہتا ہوں… جب تک کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہ رہتے ہیں… اور ایک دوسرے کو دھوکا نہیں دیتے… ایک دوسرے سے بدگمان نہیں ہوتے… ایک دوسرے سے خیانت نہیں کرتے… یعنی دو افراد کے دل جڑے تو… اُن کو اللہ تعالیٰ مل گیا… اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کا جوڑ اتنا محبوب ہے… لیکن جیسے ہی اُن کے دلوں میں… ایک دوسرے کے لئے خیانت آئی… دھوکا آیا تو… اللہ تعالیٰ نے اُن کو اکیلا چھوڑ دیا… اب نہ حفاظت، نہ برکت، نہ رہنمائی… اور نہ کامیابی… ایک روایت میں ہے کہ… اب شیطان اُن کا تیسرا بن گیا… یعنی اللہ تعالیٰ نے اُن کو چھوڑ دیا… اور شیطان اُن کا ساتھی بن گیا… اور شیطان بدترین کُھلا دشمن ہے…
حضرات صحابہ کرام نے اس حدیث شریف اور مدینہ مدینہ کے اس راز کو دل میں بٹھایا… وہ شراکت فرماتے اور اپنے دل کی اچھی نیت… اور اپنے شریک کے ساتھ خیر خواہی کے جذبے کی بدولت… اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ پالیتے… تب حالت یہ تھی کہ پورے پورے شہر میں زکوٰۃ لینے والا… کوئی ایک فرد نہیں ملتا تھا…سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم
حضرات صحابہ کرام… بے شک اس لائق تھے کہ… اُن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے محبوب آخری نبیﷺ کی صحبت کے لئے منتخب فرمایا… وہ جو سنتے تھے دل کے کانوں سے سنتے تھے… اور پھر اس پر ایسا عمل کرتے کہ… پہاڑ بھی اُن کی استقامت کے سامنے جھک جاتے… سیدنا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے… حضرت آقا ﷺ کا فرمان سنا کہ… جو سوال سے بچنا چاہے… یعنی پکا عزم کرے کہ میں کسی سے نہیں مانگوں گا تو اللہ تعالیٰ اُسے سوال سے بچادے گا… اور جو لوگوں سے ’’مستغنی‘‘ ہونا چاہے یعنی پکا عزم کرے کہ… میں کسی پر بوجھ نہیں بنوں گا… کسی کی امداد پر نظر نہیں رکھوں گا تو… اللہ تعالیٰ اُسے مستغنی فرمادیتے ہیں…
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ…مہاجر بن کر ’’مدینہ مدینہ‘‘ تشریف لائے… ظاہر بات ہے… بالکل خالی ہاتھ تھے… حضور اقدسﷺ نے اُن کا بھائی چارہ… حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کرادیا… حضرت سعد رضی اللہ عنہ مالی طور پر خوشحال تھے… بہت خوشی خوشی اپنے بھائی کو… گھر لائے… فرمایا کہ آدھا مال آپ کا اور آپ کے نکاح کا بھی انتظام ہے… حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا… اللہ تعالیٰ آپ کے مال اور اہل میں برکت عطاء فرمائے… مجھے آپ بازار کا راستہ بتادیں… بازار گئے اور پہلے دن ہی… کچھ پنیر کچھ گھی کما لائے… استغناء والے مدنی راز کی برکت کہ… کچھ ہی عرصہ میں… مدینہ منورہ کے بڑے تاجر بن گئے…
آج بہت سے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ… کاش ہم حضور اقدسﷺ کے زمانے میں ہوتے… حالانکہ ہماری حالت ہرگز ایسی نہیں ہے کہ… ہم اس طرح کی بلند تمنا کرسکیں… ہم تو ایسے نفس کے مارے ہوئے لوگ ہیں کہ… اللہ تعالیٰ ہی ہم پر رحم فرمائیں… ایک صاحب بہت پریشان حال تھے… بتارہے تھے کہ میں نے ایک پیر صاحب سے بیعت کی… پھر مالی تنگی آئی تو انہیں سے قرضہ لے لیا… اب قرضوں اور پریشانیوں میں گِھر چکا ہوں…اور شرم کی وجہ سے اُن کے پاس بھی نہیں جاسکتا…یعنی جس ’’شیخ‘‘ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا کہ… نفس کی اصلاح ہو… اُسی کو اپنے نفس کے تقاضے پورے کرنے کا ذریعہ بنادیا… کئی لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ… میرے شیخ مجھ سے کھڑے ہوکر ملتے ہیں… میرے استاذ مجھ سے کھڑے ہوکر ملتے ہیں… حالانکہ بہت شرم کی بات ہے… شیخ اور استاذ کے سامنے جاتے وقت بھی نفس کا تکبر ساتھ ہے تو پھر… روشنی کہاں سے ملے گی؟… ’’مدینہ مدینہ‘‘ نے آداب واضح فرمادیئے… پھر جنہوں نے ان آداب کو اپنایا وہ آسمانوں سے بھی بلند ہوگئے… تصوف کی کتابوں میں… آپ نے دیکھا ہوگا کہ… بڑے بڑے مشایخ لکھتے ہیں… ہم اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے… زمین بوسی کا شرف پایا… دل میں یہ تمنا ہونا کہ… میرا شیخ میرے لیے کھڑا ہو… یہ تو بہت ناممکن بات تھی… وہ حضرات تو… شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے جس قدر جھکنے کی اجازت ہے… خود کو اور دل کو جھکاتے… تب اللہ تعالیٰ زمین کے بادشاہوں کو… اُن کے قدموں میں گرادیتے…
یہ ’’مدینہ مدینہ‘‘ کا کمال ہے کہ… وہ یہ سارے راز سمجھاتا ہے کہ… کہاں ادب کرنا ہے… اور کہاں ادب کرانا ہے… کہاں کچھ دینا ہے… اور کہاں سے کچھ لینا ہے… حضرات صحابہ کرام… ان آداب میں پکے تھے… جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ… کوئی تاجر… یہ معلوم کرنے کی زحمت نہیں کرتا کہ… مدینہ مدینہ نے کامیاب تجارت کے کیا راز… اور کیا آداب سکھائے ہیں… ہم نے آج جو ’’حدیث قدسی شریف‘‘ بیان کی ہے…
انا ثالث الشریکین
کہ اللہ تعالیٰ دو شریکوں میں… تیسرے ہوتے ہیں… اس حدیث شریف پر عمل کی برکات کے بے شمار قصے ہیں… اور یہ حدیث شریف صرف تجارت کے لئے نہیں ہے… کسی بھی اچھے معاملے میں… جب دو مسلمان باہم شریک بنتے ہیں تو… اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اُن کو نصیب ہوتی ہے… مثلاً گھر چلانے کے معاملات میں… اور اولاد کی تربیت میں… میاں بیوی کی شراکت… اگر ان دونوں کے دِل جڑے ہوئے ہوں… ایک دوسرے کو دھوکا نہ دیتے ہوں تو… اُن کو اللہ تعالیٰ کی ایسی معیت اور نصرت ملتی ہے کہ… گھر خیرو برکت سے بھر جاتا ہے اور اولاد کی تعلیم وتربیت بھی مثالی ہوتی ہے… لیکن جب یہ ایک دوسرے کو دھوکا دیں تو گھر اُجڑ جاتا ہے… یہی معاملہ دو بھائیوں کا ہے جو کسی کام میں شریک ہوں… یہی معاملہ دو بہنوں کا ہے جو کسی کام میں شریک ہوں… اور تجارت میں تو یہ اصول… آج کل کے الفاظ میں ’’گیم چینجر‘‘ کا کردار ادا کرتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے… غریب وفقیر افراد… اس اصول کو اپنا کر غنی ہوجاتے ہیں… کسی زمانے ایک مسجد میں درس اور جمعہ کے بیان کی توفیق ملتی تھی… وہاں تاجر حضرات زیادہ تھے تو… اس حدیث شریف کا خوب بیان ہوتا تھا… کئی افراد نے اس حدیث پر عمل کرنے کے لئے اپنی بیوی کو تجارت میں اپنا شریک بنالیا… اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی تجارت کامیاب ہوگئی… مگر یہ اُن میاں بیوی میں ہوتا ہے جو آپس میں ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں… خاوند نے بیوی سے اُس کا کچھ مال لیا… اور اُسے تجارت میں اپنا شریک بنالیا… یہاں ان دو شریکوں میں… اکثر خیر خواہی ہوتی ہے… اور ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ… دوسرے کو زیادہ نفع ہو… جب یہ حالت آئی تو اللہ تعالیٰ ساتھ ہوگئے… اللہ تعالیٰ ساتھ ہوگئے تو پھر کامیابی میں کیا شک؟… بعض تاجر حضرات نے بتایا کہ کام میں نقصان جارہا ہے تو اُن کو بھی یہی مشورہ دیا کہ… کسی کو اپنے ساتھ شریک کرلیں…
کوئی بھی فرد… جو آپ سے اللہ کے لیے محبت رکھتا ہو… اور آپ اس سے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت رکھتے ہوں… اور اس کا مال حلال بھی ہو… اور دونوں ایک دوسرے کے لئے خیر اور امانت کا جذبہ رکھتے ہوں تو… پھر کاروبار کا نقصان چند دن میں ختم ہوجاتا ہے… اسی طرح اگر کاروبار کے نفع میں… اللہ تعالیٰ کا حصہ مقرر رکھا جائے کہ… میں اتنا نفع ضرور… اللہ تعالیٰ کے راستے میں دوں گا… اور پھر دل کی خوشی سے یہ حصہ نکالا جائے تو… اس سے بھی کاروبار میں بہت کامیابی ملتی ہے… یہ راز بھی ’’مدینہ مدینہ‘‘ نے سکھایا ہے… اس کی تفصیل پھر کبھی ان شاء اللہ…
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں… تجارت کے لئے چلنے والوں کا تذکرہ… جہاد وقتال میں چلنے والوں کے ساتھ فرمایا ہے… حضرات صحابہ کرام نے اپنی زندگی میں… جہاد اور تجارت کو جمع فرمایا… انہوں نے اپنی تجارت سے… جہاد کو بے حد فائدہ پہنچایا… اور کبھی بھی تجارت کو… جہاد میں نکلنے کے لئے رکاوٹ نہیں بننے دیا… اور حضرت آقا مدنیﷺ نے بہت تفصیل سے… تجارت اور اس میں کامیابی کے راز اپنی اُمت کو سکھائے… اسی نکتے کی طرف توجہ دلانے کے لیے… یہ چند باتیں عرض کی ہیں… آج ’’تجارت‘‘ شریعت سے بہت دور ہوتی جارہی ہے… آج ’’تجارت‘‘ جہاد فی سبیل اللہ کو نفع نہیں پہنچارہی… بلکہ… جو ’’اہل جہاد‘‘ ’’اہل تبلیغ‘‘ تجارت میں جاتے ہیں… وہ بھی خلاف شرع تجارت میں مبتلا ہوکر… خود بھی جہاد اور تبلیغ سے محروم ہوجاتے ہیں… اُلٹا اپنے ظاہری حلیے اور نسبت کی وجہ سے … دین کے ان کاموں کو بھی بدنام کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں… آج مسلمانوں کو… یورپ کی سودی تجارت تو سکھائی جارہی ہے جبکہ… مدینہ مدینہ کی پاکیزہ تجارت کا اُن کو علم نہیں ہے… اللہ کرے ’’مدینہ مدینہ‘‘ کی برکت سے کچھ توجہ اس طرف بھی ہوجائے… مجلس کا اختتام ’’مدینہ مدینہ‘‘ کی سکھائی ہوئی تجارت کے دو واقعات پر کرتے ہیں…
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ… بہت ماہر تاجر تھے… لوگ اُن سے تجارت کے معاملات میں مشورہ لیا کرتے تھے… حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں… میرے والد محترم (حضرت سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ) شہید ہوگئے اور اُن پر بہت زیادہ قرضہ تھا… میں مشورہ کے لئے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا (تاکہ اپنے والد کی جائیداد اور قرضہ کے امور میں اُن سے مشورہ کرسکوں) معلوم ہوا کہ آپ بازار گئے ہوئے ہیں… میں بازار میں آیا تو دیکھا کہ وہ ایک اونٹ لے کر بازار میں گھوم رہے ہیں تاکہ اس اونٹ کو فروخت کریں… میں نے سلام کے بعد اپنا مسئلہ بتایا تو کہنے لگے تم میرے ساتھ رہو… میں یہ اونٹ بیچ لوں تو پھر گھر چل کر بات کرتے ہیں… اب وہ مجھے بھی اپنے ساتھ گھماتے رہے… گرمی اس قدر تھی کہ مجھے سورج سے بچنے کے لئے اپنی چادر کی آڑ لینی پڑ رہی تھی… کافی گھومنے کے بعد ایک آدمی نے اُن سے وہ اونٹ خرید لیا مگر اس میں اُن کو صرف ایک درہم کا نفع ملا… یہ صورتحال دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے کہہ دیا کہ آپ نے صرف ایک درہم کے لئے خود کو اور مجھے اتنی سخت گرمی میں سارا دن تھکایا… انہوں نے بات سن لی مگر جواب نہ دیا اور مجھے ساتھ لے کر واپس لوٹے… راستے میں وہ ایک ٹوٹی ہوئی آبادی کی طرف مڑ گئے… وہاں ایک کمزور بوڑھی عورت سے ملے اور اُسے وہ ایک درہم جو آج کمایا تھا دے دیا… پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں نے اس بڑھیا کی حالت دیکھی تو عزم کرلیا کہ… آج جتنا بھی نفع ہوگا سارا اس کو دوں گا… اب اتفاق ہے کہ آج نفع کم ہوا اگر بہت زیادہ ہوتا تو وہ بھی سارا میںاُس کو دے دیتا…
حضرت عروہ بن جعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مدینہ منورہ میں ایک بار منڈی لگی آپﷺ نے مجھے ایک دینار دیا اور ارشاد فرمایا: اے عُروہ منڈی میں جائو اور ہمارے لیے ایک بکری خرید لائو… میں منڈی میں گیا وہاں بھائو تائو کرکے ایک دینار کی دو بکریاں خرید لایا… راستے میں مجھے ایک آدمی ملا وہ میرے ساتھ بھائو تائو کرنے لگا میں نے سودا کرلیا اور ایک بکری اس کو ایک دینار میں بیچ دی… اب ایک بکری اور ایک دینار لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا… یارسول اللہ! یہ رہا آپ کا دینار اور یہ رہی آپ کی بکری… آپﷺ نے تفصیل پوچھی تو میں نے پوری بات عرض کردی… تب آپﷺ نے مجھے دعاء دی:
یااللہ! اس کے ہاتھ کے سودے میں برکت عطاء فرمادیجئے…
حضرت عُروہ فرماتے ہیں کہ (اس دعاء کی برکت ایسی لگی کہ) آج میں کوفہ کے بازار میں کھڑے کھڑے تھوڑی دیر میں چالیس ہزار نفع کمالیتا ہوں…مسند احمد
سکھاتا ہے سب کچھ…مدینہ مدینہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

http://alqalamweekly.blogspot.com/

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے