اسلام آباد:  آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل نے نئی سمری سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔ عدالت نے کہا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق حکومت کا سارا کیس آرٹیکل 255 کے گرد گھوم رہا ہے لیکن جس آرٹیکل میں ترمیم کی گئی وہ آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کہاں رہ گئے تھے؟ کل آپ تشریف نہیں لائے، آپ کی درخواست زندہ رکھی۔

ریاض راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہو گئے ہیں۔ جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں، آپ تشریف رکھیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے موقف اپنایا کہ گزشتہ روز کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں، آرمی رولز کا حوالہ دیا تھا، عدالت نے حکم نامے میں قانون لکھا، عدالت نے کہا صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی غلطیاں دور کر دی گئی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کابینہ کے ارکان نے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا تھا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اب تو حکومت اس کاروائی سے آگے جا چکی ہے، عدالت نے آپ کی دستاویزات کو دیکھ کر حکم دیا تھا، رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‏کل بھی بتایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن پر متعدد وزرا کے جواب کا انتظار تھا، کابینہ اراکین کو وقت دیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کابینہ اراکین کا جواب نہ آئے تو کیا اسے ہاں سمجھا جاتا ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قواعد کے مطابق ایسا ہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کابینہ کے گزشتہ روز کے فیصلوں کے بارے میں دستاویزعدالت میں جمع کرائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏ایسا صرف اس صورت میں سمجھا جاتا ہے جب مقررہ مدت میں جواب دینا ہو، ‏اگر اوپن مینڈیٹ تھا تو چھوڑ دیتے ہیں، ‏آپ نے مدت مقرر نہیں کی تھی لہٰذا آپ کے سوال کا جواب آج بھی ہاں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں جنرلز مدت ملازمت میں توسیع لیتے رہے، اس معاملے پر پہلے کبھی کسی نے سوال نہیں اٹھایا، اب سوال اٹھا ہے تو جائزہ لینے دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ریگولیشن کے 262 اے میں پاک فوج کے جوانوں کی ریٹائرمنٹ سے متعلق بتایا گیا ہے، آرٹیکل 243 کے مطابق صدر مملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں اور وزیراعظم کی ایڈوائس پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے، کیا اس میں تعیناتی کی مدت کا بھی بتایا گیا ہے ؟ کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف بنایا جاسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی، اپنے دلائل مکمل کر کے عدالتی سوالات کے جواب دوں گا، آرمی ریگولیشن آرمی ایکٹ کے تحت بنائے گئے۔ تعیناتی کی مدت نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں آرمی چیف 10، 10 سال تک توسیع لیتے رہے، آج یہ سوال سامنے آیا ہے، اس معاملے کو دیکھیں گے، تاکہ آئندہ کیلئے کوئی بہتری آئے، تاثر دیا گیا کہ آرمی کی چیف کی مدت 3 سال ہوتی ہے۔ آرمی ریگولیشنز کے مطابق ریٹائرمنٹ کر کے افسران کو سزا دی جا سکتی ہے، حال ہی میں 3 سینیئر افسران کی ریٹائرمنٹ معطل کر کے سزا دی گئی تھی۔ جو صفحات آپ نے دیئے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں، یہ نئی ریگولیشن کس قانون کے تحت بنی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ نے آج بھی ہمیں آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا، آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے، کیا 3 سال بعد آرمی چیف گھر چلا جاتا ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پوری کتاب کو دیکھنا ہے ایک مخصوص حصے کو نہیں، آرمی ریگولیشن رول 255 ریٹائرڈ افسرکو دوبارہ بحال کر کے سزا دینے سے متعلق ہے، ہمیں اس تناظر میں دیکھنا ہے کہ 3 سال بعد کیا ہونا ہے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس کے دوران اٹارنی جنرل درمیان میں بول پڑے جس پر چیف جسٹس نے انور منصور خان سے پوچھا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ جلدی میں تو نہیں ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں میں رات تک یہاں ہوں، جنگی صورتحال میں اگر کوئی فوجی افسر ریٹائر ہو رہا ہو تو اسے کہتے ہیں آپ ٹھہر جائیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 255 اے کہتا ہے دوران جنگ آرمی چیف کسی کی ریٹائرمنٹ کو روک سکتا ہے، یہاں آپ چیف کو سروس میں برقرار رکھ رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تعیناتی کی تعریف میں دوبارہ تعیناتی بھی آتی ہے، آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے، اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جاسکے تو دو ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے، 1948 سے آج تک تمام آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے۔ دلائل کے دوران اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے، آپ کا سارا کیس 255 اے کے گرد گھوم رہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ معاملہ توسیع اور نئی تعیناتی کا ہے، اس کو کیسے قانونی طور پر ثابت کریں گے، اٹارنی جنرل کی رولز سے متعلق دستاویزات سے مطمئن نہیں ہوں، دوران جنگ ممکن ہے افسران کو ریٹائرمنٹ سے روکا جاتا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی میں توسیع آئین کے تحت نہیں، عارضی سروس رولز کے تحت دی گئی، بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 57 لکھی ہے، چار سال تعیناتی یا 57 سال عمر دونوں میں سے جو پہلے آ جائے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اصلی نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش کر دیتا ہوں، آرمی چیف کی مدت ملازمت کا تعین کرنے والی مجاز اتھارٹی سے متعلق قانون خاموش ہے، یہ بات درست نہیں کہ ہم نے 2 مرتبہ تعیناتی کی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارا سوال ہے کہ تعیناتی میں مدت ملازمت کہاں سے آتی ہے، 243 تعیناتی ہے اور رول 255 دوبارہ تعیناتی ہے، آرمی ایکٹ میں سپہ سالارکی مدت تعیناتی کے متعلق کچھ نہیں، اگر آرمی ایکٹ میں مدت تعیناتی نہیں تو رولز میں کیسے ہوسکتی؟ آرمی ایکٹ میں صرف لکھا ہےکہ آرمی چیف فوج کی کمانڈ کرینگے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کو فوج کی کمانڈ اور سروس کے حوالے سے رولز بنانے کا اختیار ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ رولز آرمی ایکٹ کی دفعہ 176 اے کے تحت بنائے گئے، آج 184/3 کے حوالے سے رولز فل کورٹ اجلاس میں زیر بحث آئیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج دو بجے فل کورٹ میٹنگ بھی ہے کیا اٹارنی جنرل اس کے بعد دلائل دینا چاہیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج ہی سماعت کریں، رات تک دلائل دے سکتا ہوں۔

وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے کہا آرمی چیف کی مدت تعیناتی پر آئین خاموش ہے تو دوبارہ تعیناتی کس قانون کے تحت ہو گی، آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے، اصل مسئلہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا آرمی ایکٹ کو سمجھے بغیر ہمیں دلائل کیسے سمجھ آئیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تمام سوالوں کے جواب دوں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو اجازت دیتے ہیں، جو بولنا چاہتے ہیں، ہم قانونی نکات پر بات کریں گے، آرمی رولز اور ریگولیشن کو پڑھتے ہیں، ٹکڑوں میں جواب کا کوئی فائدہ نہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو کہنا ہے کہیں، ایک ایک لفظ نوٹ کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو قانون پر اتنا سخت نہیں ہونا چاہیئے، بعض اوقات سختی سے چھڑی ٹوٹ جاتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے، اصل مسئلہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کیا ہو گی، اگر دوبارہ تعیناتی کی جائے تو وہ کس قانون کے تحت ہو گی، کیا ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرڈ جنرل کو دوبارہ آرمی چیف بنایا جا سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے مزید دلائل دیئے کہ آرمی چیف کی تعیناتی آرٹیکل 243 کے تحت ہوتی ہے، تعیناتی کی مدت کو 1947 کے کنونشن سے اخذ کیا جاتا ہے، عوام کو آگاہ کروں گا تعیناتی کی مدت کا تعین کیسے ہوتا ہے، آرمی ایکٹ کا اطلاق تمام افسران پر ہوتا ہے، آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی افسر وہ ہے جو کمیشنڈ افسر ہو، آرمی چیف کو کسی بھی افسر کی برطرفی کا اختیار ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا بتائیں آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہے اچھے افسر کو توسیع دے دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا رولز 176 میں یہ چیزیں بتائی گئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 176 میں صرف رولز ہیں افسران کی مدت میں توسیع کا ذکر نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا اچھی کارکردگی والے افسرکو کس قانون کے تحت برقرار رکھا جاتا ہے ؟ آپ نے آرمی ایکٹ، ریگولیشنز میں توسیع سے متعلق شق نہیں بتائی۔ اٹارنی جنرل نے کہا مدت تعیناتی میں توسیع کا ذکر رولز میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا رولز ہمیشہ ایکٹ اور قانون کے تحت ہی بنتے ہیں، ایکٹ میں ایسا کچھ نہیں کسی بہت قابل افسر کو ریٹائر ہونے سے روکا جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا مدت ملازمت کا زکر رولز میں ہے ایکٹ میں نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آرمی ایکٹ میں مدت اور دبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی ذکر ایکٹ میں نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا سیکشن 176 میں قواعد بنانے کے اختیارات موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت آرمی سے متعلق قواعد اور ضوابط بناسکتی ہے۔

اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا آرمی کا ادارہ پوری دنیا میں کمانڈ کے ذریعے چلتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا آرمی آفیسر کے حلف میں ہے کہ اگر جان دینی پڑی تو دوں گا، یہ بہت بڑی بات ہے، خود کو سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے، بہت اچھی بات ہے اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا ہم آفیسرز کے لفظ کی تشریح چاہتے ہیں جس پر آپ انحصار کر رہے ہیں، آرمی ایکٹ میں کمیشنڈ افسر کی تعریف نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا تعریف ہے، اعلی افسر کمیشنڈ افسر کہلاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہیں گربڑ ہے ہم سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا ادارے کا ایک باقاعدہ نظام ہے، سپاہی کا افسر لانس نائیک ہوگا، اس طرح پورے ادارے کا نظام ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا سیکشن 16 ملازمت سے برخواستگی سے متعلق ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا آرمی چیف کسی کو بھی نوکری سے نکال سکتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا وفاقی حکومت بھی کسی کو نوکری سے نکال سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا آرمی چیف کو محدود مگر وفاقی حکومت کو مکمل اختیارات ہیں، جونئیر اور چھوٹے افسران کو آرمی چیف نکال سکتے ہیں، عمر کا بھی تعین ہے کہ کون کس عمر میں کیسے ریٹائر ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت کم کرکے دوبارہ تعینات کیا۔ کنونشن روایات ہیں جو برطانوی آئین سے اخذ کی گئی ہیں۔ اس پر جسٹس منصور نے کہا کہ اب آپ نے نئی بات شروع کر دی ہے، جب آئین موجود ہے تو روایات کی کیا ضرورت ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی کو بغیر کمانڈ کے نہیں چھوڑا جا سکتا جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کوئی نہیں چاہتا آرمی کماںنڈ کے بغیر رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت قانون کی پوری کوشش ہے کہ آرمی کو بغیر کمانڈ رکھا جائے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے تو اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی نہیں ہوتی جیسے آرمی چیف کو کیا جا رہا ہے۔ آرمی چیف کو شٹل کاک کیوں بنایا گیا؟ آرمی بغیر کمانڈ ہوئی تو ذمہ دار کون ہوگا؟ آج آرمی چیف کے ساتھ یہ ہو رہا تو کل صدر اوروزیراعظم کے ساتھ ہوگا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ خود کہتے ہیں توسیع اور تعیناتی الگ چیزیں ہیں۔ کل تک کوئی حل نکال لیں، ناجائز کسی کو کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر غیر قانونی ہے تو ہمارا حلف ہے کہ کالعدم قرار دیں۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے