تحریر: احمد مختار

پینٹاگون کے حکام نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ انہوں نے گذشتہ ستمبر میں افغانستان میں 1110 حملے کیے تھے ، جن میں روزانہ اوسطا 40، 40  کے قریب حملے ہوتے تھے ۔

جب 7 ستمبر کو امارت اسلامیہ اور امریکی وفد کے مابین ہونے والے مذاکرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  نے منسوخ کر دیا اس وقت سے افغانستان میں نہتے شہریوں کے خلاف امریکی فضائی حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں آئے روز قابض امریکی فوج کے ظالمانہ فضائی حملوں میں متعدد شہری لقمہ اجل بنتے ہیں ۔

اگرچہ امریکی حملہ آوروں نے طالبان کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ہر روز یہی اعلانات کرتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان حملوں میں زیادہ تر عام شہری نشانہ بنتے ہیں، رات کے چھاپوں اور فضائی حملوں سے سب سے زیادہ متاثرین عام شہری ہیں اور خاص طور پر دیہی علاقوں کے شہری زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔

17 اکتوبر کو کابل میں اقوام متحدہ کے سیاسی نمائندے کے دفتر یوناما نے افغانستان میں شہری ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافے کی رپورٹ شائع کی ، یوناما کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق رواں سال کے تین ماہ (جولائی ، اگست اور ستمبر) میں (4313) شہری شہید اور زخمی ہوئے ۔ یوناما کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال کے اسی وقت کے مقابلے میں شہری ہلاکتوں میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن ان تمام المناک واقعات پر کسی ملک یا انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی ان کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔

قابض امریکی فوج اور افغان کٹھ پتلی فورسز شہری ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے اور عام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے جان بوجھ کر انہیں نشانہ بنانے کی پالیسی پر گامزن ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عام افغان عوام کے قاتل اور دشمن ہیں ۔

امریکی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اگست میں (810) اور جولائی میں (537) حملے کئے تھے ان حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں شہری نشانہ بن چکے ہیں لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ خود کو منتخب حکومت کا دعوی کرنے والے کٹھ حکمران نے ان واقعات کی مذمت کی ہے اور نہ ہی تحقیقات کا اعلان کیا ہے بلکہ برعکس امریکی مظالم کی ذمہ داری بھی قبول کر رہے ہیں اور سیکورٹی معاہدے کے تحت انہیں قانونی جواز بھی فراہم کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نام نہاد حکمران افغان عوام کے قاتل ہیں حکمران اور محافظ نہیں ہیں ۔

امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے وزیر دفاع نے امارت اسلامیہ کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کے بعد متعدد بار دھمکیاں دی ہیں کہ وہ افغانستان میں اپنے حملوں میں مزید اضافہ کریں گے تاکہ طالبان پر فوجی دباؤ ڈالیں اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق مذاکرات پر مجبور کر سکیں لیکن یہ ان کی حماقت اور خام خیالی ہے جس کا تجربہ وہ سینکڑوں مرتبہ کر چکے ہیں اور ہر بار رسوا ہوئے ہیں ۔

اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رواں سال کے آخری تین مہینوں میں 4313 شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں اور ان اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال شہری ہلاکتوں میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان میں قابض امریکی فوج کے مظالم اور جنگی جرائم کے خلاف آواز اٹھائیں، شہری ہلاکتوں کی روک تھام کے لئے فوری طور اقدامات کریں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں بصورت دیگر ان کے کردار پر بھی لوگ انگلیاں اٹھائیں گے ۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے