انڈین فضائیہ کے سابق وائس ایئر مارشل کشمیری نژاد کپل کاک نے کشمیر کی موجودہ صورتحال کو ’فروزن امپریزنمنٹ‘ یعنی یخ بستہ قید قرار دیا ہے۔

انڈیا کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا اور سینئر صحافی بھارت بھوشن کے ہمراہ کشمیر کے دورے پر آئے کپل کاک کہتے ہیں ’70 لاکھ کشمیریوں کو ایک یخ بستہ جیل میں رکھا گیا ہے اور صورتحال کو نارمل کہا جا رہا ہے۔ اعلانات کرنے کے بجائے کشمیریوں کے اُس درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے جس میں وہ تب سے ہی مبتلا ہیں جب کشمیر کی نیم خود مختاری کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا تھا۔‘

واضح رہے جمعہ کے روز انڈیا کے سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا کی قیادت میں سول سوسائٹی کا ایک وفد کشمیر پہنچا تھا۔

اس سے قبل کئی مرتبہ سول سوسائٹی اور سیاسی نمائندوں کو کشمیر آنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی، تاہم یورپین یونین کے وفد کے حالیہ دورے کے بعد اب یہ پابندی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

یشونت سنہا نے سرینگر پہنچتے ہی کہا کہ کشمیر میں حالات قطعی طور نارمل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’میں ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو دیکھا سبھی دکانیں بند ہیں، لوگوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہے، فون رابطوں اور انٹرنیٹ پر پابندی ہے۔ ہم تک معلومات حکومت یا جانبدار میڈیا کے ذریعے پہنچتی ہیں، لہذا ہم خود حالات کا جائزہ لے کر پورے ملک کو اصل صورتحال سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

جس ہوٹل میں یہ وفد قیام کر رہا ہے وہاں میڈیا کے داخلے پر پابندی نافذ کی گئی ہے، تاہم ہوٹل میں داخل ہوتے وقت یشونت سنہا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ صورتحال کا آزادانہ جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ اس موقعے پر بھارت بھوشن نے میڈیا کے ساتھ گفتگو کرنے پر پابندی کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا۔

پانچ اگست کو انڈین پارلیمان میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ہٹانے اور اسے دو الگ الگ یونین علاقوں میں تقسیم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی کشمیر میں سکیورٹی پابندیوں، گرفتاریوں اور ہڑتال کا سلسلہ شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

کشمیر کی تازہ کشیدگی کا براہ راست جائزہ لینے کے لیے کئی مرتبہ انڈین سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کشمیر آنے کی کوشش کی تاہم انہیں ہوائی اڈے سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔

ان میں کانگریس کے رہنما راہل گاندھی اور غلام نبی آزاد بھی شامل ہیں۔

بعد میں سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور غلام نبی آزاد نے کشمیر کا دورہ کیا تاہم انہیں پریس کانفرنس کی اجازت نہیں دی گئی۔

گذشتہ ماہ انڈین حکومت کی حمایت کرنے والی یورپی یونین کی دائیں بازو کی جماعتوں کے بیس سے زیادہ اراکین پارلیمان نے کشمیر کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے بعد کئی وفود کو یہاں آنے کی اجازت دی گئی۔

یشونت سنہا کی قیادت والے وفد میں شامل سینئر صحافی بھارت بھوشن نے بتایا کہ کشمیر میں میڈیا کو آزادانہ طور پر کام کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے، لہٰذا حالات کو پرسکون اور پرامن نہیں کہا جاسکتا۔

’سرکاری دفتر کے ایک کمرے میں چار کمپیوٹر رکھ کر میڈیا کو وہاں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ والدین باہر مقیم اپنے بچوں کی فیس انٹرنیٹ بینکنگ کے ذریعے جمع نہیں کروا سکتے، کاروبار ٹھپ ہے۔ آخر کشمیری بھی انڈیا کے شہری ہیں، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ ۔امتیازی سلوک کیوں

ریاض مسرور

بی بی سی اردو سروس سرینگر

بشکریہ بی بی سی اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے