مولانا مجاہد عباس کی یاد میں

نوید مسعود ہاشمی

پیدائش کے بعد مجاہد عباس نام یقینا ان کے والدین نے رکھا ہوگا … لیکن عملی زندگی میں وہ واقعی اسلام کے سچے مجاہد ثابت ہوئے، میرا ان کے ساتھ تعلق27 سالوں پر محیط تھا۔ مزاج سادہ، ادائیں دلنواز، انداز دلربا، مسکراہٹیں جاندار، کشمیر ہو، افغانستان ہو، فلسطین ہو یا برما۔ مظلوم مسلمانوں کی مدد اور نصرت کے لئے ہر دم آمادہ اور تیار، خالص پاکستانی، اسلام اور وطن عزیز کی خاطر ہر وقت جان ہتھیلی پر لیے گائوں، گائوں، شہر ، شہر، قریہ، قریہ، بستی، بستی سیرت النبیۖ کی خوشبو پھیلانے والے ، قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے فلسفہ جہاد کو بیان کرنے والے میرے پیارے دوست مولانا مجاہد عباس بھی اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
گزشتہ3روز قبل کراچی میں منعقدہ سیرت النبی ۖ پروگرام میں خطاب کے بعد انہیں دل کا اٹیک ہوا، قریبی رفقاء انہیں ہسپتال لے جارہے تھے مگر انہیں رب سے ملاقات کا شوق تھا، چنانچہ راستے میں ہی روح پرواز کرگئی۔
رب سے ملاقات کا شوق یہ کوئی صحافتی لفاظی یا مبالغہ آرائی نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہے… مجاہد عباس کو جاننے والے جانتے ہیں کہ جس طرح ملعون مرزا قادیانی کے چیلوں، چانٹوں کو ”جہاد” کی عبادت کو بدنام کرنے کا شوق تھا ، اس سے کہیں بڑھ کر مولانامجاہد عباس کو قرآن و حدیث کے بیان کردہ جہادی احکامات کو امت تک پہنچانے کا شوق اور جذبہ تھا، مرتے دم تک وہ شہادت کے متمنی رہے، یاد رکھیئے شہادت کی موت کا وہی متمنی ہوتا ہے جسے اپنے پاک پروردگار سے ملاقات کا شوق ہو… مولانا مجاہد عباس، کشمیر کی آزادی کا راز جہاد فی سبیل اللہ میں مضمر سمجھتے تھے… تحریک کشمیر سے انہیں خاص الخاص محبت تھی، اپنے بیانات میں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں پر خوفناک مظالم کا ذکر کرکے وہ خود بھی تڑپتے او ر عوام کو بھی تڑپاتے رہے ، وہ چونکہ آئین پاکستان پر یقین رکھتے تھے اس لئے ملکی سالمیت کو دل و جان سے عزیز سمجھتے تھے۔
جس وقت مرکز میں نواز شریف اور پنجاب میں شہباز شریف کی ظالمانہ طاقت کا سکہ چلتا تھا ،نریندر مودی کو راضی کرنے کیلئے کشمیریوں کی حمایت کے الزام میں انہیں بھی گرفتاری کا مزہ چکھنا پڑا، بتانے والے بتاتے ہیں کہ عدالت میں جج کے سامنے کھڑے ہوکر انہوں نے کہا تھا کہ قادیانی انکار جہاد کا فتنہ ہے، جبکہ شریعت مطہرہ میں جہاد مقدس کا منکر کافر ہے ، شریعت کا یہ مسئلہ بیان کرنا جرم ہے تو یہ جرم ہم کرتے رہیں گے۔
تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کے جرم میں انہیں پس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا، وہ کئی سال گرفتار رہے لیکن تحریک کشمیر کی محبت سے منہ پھیرنا گوارا نہ کیا، سچی بات ہے کہ یہ مولانا مجاہد عباس جیسے ان سینکڑوں باصفا لوگوں کے ساتھ بھارت کی خوشنودی کے لئے روا رکھا جانا ظالمانہ رویہ تھا کہ جس کی سزا کے عذاب کی گرفت نے شریف برادران اور شریف خاندان کو آج تک اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔
مجھے ان اینکرنیوں، اینکرز اور صحافیوں پر بھی تعجب ہوتا ہے کہ جو رات دن کبھی رانا ثناء اللہ کے جرم بے گناہی کی دہائیاں دیتے ہیں اور کبھی نواز شریف کی صفائیاں پیش کرتے ہیں، شاید وہ یہ بات نہیں جانتے کہ جب یہ حکمران تھے تو ان کی جیلوں میں کتنے بے گناہ علماء، حفاظ، قراء، جہاد کشمیر سے محبت کرنے والے تڑپائے جاتے رہے۔
نواز شریف سے مریم نواز کی ملاقات پر پابندی لگنے پر صرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ ان کے دستر خوان کا راتب خور میڈیا بھی دہائیاں دیتا تھا، مگر جب یہی نواز شریف اور ان کا بھائی حکمران تھے صرف شک کی بنیاد پر مسجد یا مدرسے سے اٹھائے جانے والے نوجوان کو کئی کئی سالوں تک سورج کی روشنی بھی نہیں دیکھنے دی جاتی تھی۔
فورتھ شیڈول جیسا بدنام زمانہ قانون علماء، دینی مدارس اور کشمیر کے جہادیوں ے خلاف شریفوں کا ہی دیا ہوا تحفہ ہے، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبد الغفور حیدری کی قیادت میں مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی اور مولانا حنیف جالندھری جیسے نامور علماء کا ایک وفد خادم اعلیٰ شہباز شریف سے ملا تھا ، اس میٹنگ میں آئی جی پنجاب، اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ سمیت متعدد ایجنسیوں کے پنجاب کے سربراہان بھی موجود تھے، مولانا حیدری نے فورتھ شیڈول کا نشانہ بننے والے بے گناہ جید علماء اور صوفیا کی پوری لسٹ ”خدمت خادم اعلیٰ” میں پیش کی ، انہوں نے ”انگلی” گھما کر فورتھ شیڈول کا نشانہ بنائے جانے والے بے گناہ علماء کے ساتھ زیادتیوں کے ازالے کا وعدہ بھی کیا مگر اس سب کے باوجود وہ بے گناہ علماء آج تک ”فورتھ شیڈول” کا مزہ چکھ رہے ہیں۔
نواز شریف کی نااہلی کے فوراً بعد ایک تفصیلی ملاقات میں اس خاکسار نے مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ نواز شریف حکومت کے دینی مدارس اور دینداروں پر مظالم کچھ کم تو نہیں ہیں کہ جو ان کی نااہلی کے خلاف آواز بہت بلند کی جائے؟
مگر مولانا فضل الرحمن چونکہ سیاست اور ذہانت کے بادشاہ ہیں اس لئے ان کے سامنے پہلے کب کسی کی دال گلی ہے کہ جو ہماری گلتی؟ آج اگر نواز شریف جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی سے نکل کر فرنگی سرکار کی سرزمین لندن جاپہنچے ہیں تو یہ احسان بھی جمعیت علماء اسلام کے علماء، فضلاء اور کارکنوں کا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک موقع پر پارلیمنٹ کشمیر کمیٹی کے دفتر میں مولانا فضل الرحمن نے مجھے ملک کے مختلف تھانوں میں درج کئی ایف آئی آرز کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں دکھا کر فرمایا تھا کہ خادم اعلیٰ کے صوبہ پنجاب میں جمعیت کے کئی علماء کے خلاف مختلف شہروں کے تھانوں میں درج مقدمات کی وہ کاپیاں ہیں کہ جن سب پر لگایا جانے والا الزام اور ایف آئی آر کا متن تقریباً ایک ہی ہے کہ یہ فرقہ واریت میں ملوث پائے گئے …حالانکہ جمعیت علماء اسلا کا فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کے حوالے سے کردار مثالی ہے، مطلب یہ کہ ”شریفوں” نے اپنی حکومت میں معاف کسی بھی مذہبی جماعت کے کارکنوں کو نہیں کیا، لیکن ان بے گناہ مذہبی لوگوں کا ساتھ دینے کے لئے کوئی تیار نہ ہوا…شریفوں نے اپنے دور اقتدار میں امریکہ اور بھارت کو راضی کرنے کے لئے جس طرح سے مذہب پسندوں پر مظالم ڈھائے اس کا بدلہ انہوں نے کچھ پالیا اور اگر ان بے گناہ خاندانوں سے معافی نہ مانگی تو ابھی مزید بھی بھگتیں گئے، عمران خان حکومت بھی انہی کی روش پر چل کر اگر ایف ٹی اے ایف اور بھارت کو خوش کرنے کے لئے بے گناہ انسانوں کو قید و بند کی صعوبتوں میں ڈالے گی تو رب کی پکڑ ان تک بھی ضرور پہنچ کر رہے گی ۔
میرا دوست مجاہد عباس مجھ سے کہا کرتا تھا کہ ہاشمی صاحب! جہاد کشمیر سے محبت کے جرم میں ہم نے سال ہا سال جیل کاٹی مگر اُف تک نہ کی … اور بھارت کی خوشنودی کیلئے ہمیں زنداں خانوں میں ڈالنے والے ”شریف ” جب قانون کے شکنجے میں آئے تو ان کی چیخوں سے آسمان گونج رہا ہے ، یہ تو بڑے بزدل نکلے۔
احباب مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ میں شریفوں کی حمایت میں کیوں نہیں لکھتا حالانکہ میرا قلم عمران خان حکومت کا بھی سخت ناقد ہے، یہی مجاہد عباس جیسے وہ سینکڑوں علماء ہیں کہ جو ”شریف” حکومت کے مظالم کا نشانہ بنے، ان پر ڈھائے جانے والے بے پناہ مظالم مجھے شریفوں کی حمایت سے روکتے ہیں، علماء کے دھرنے کی برکت سے لندن پدھارنے والے شریفوں کو کوئی بتائے کہ تمہارے دور میں ظلم کا نشانہ بننے والے مولانا مجاہد عباس کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد جب جناح ہسپتال لے کر جارہے تھے تو راستے میں ہی رفقاء کو کہا کہ لگتا ہے کہ میرا آخری وقت آن پہنچا، مجھے بہاولپور مدرسے کے قبرستان میں دفن کر نا ، پھر درود شریف پڑھا اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے جان، جان آفرین کے سپرد کر دی۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طنیت را

بشکریہ روزنامہ اوصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے