ربیع الاول …تین مختصر گزارشات

مولانا محمد منصور احمد صاحب

ربیع الاول کے ابتدائی د ن ہیں۔ہر سال کی طرح اس سال بھی ملک کے طول و عرض میں اس ماہ کے دوران عظیم الشان جلسے ،جلوس اور محافل برپا کی جائیں گی۔خوش الحان قراء ,صاحب طرز نعت خواں اور شعلہ بیان مقررین اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر کے خوب داد و تحسین سمیٹیں گے۔
سیرت طیبہ کو بیان کرنا بلاشبہ ایک اہم عبادت ہے اور ہر عبادت کی قبولیت کیلئے اخلاص لازمی شرط ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔آمین

 

 اول :سیرت پاک پوری زندگی کا وظیفہ
آج کل عام طور پر سیرت پاک کی محافل اور مجالس کو صرف ماہ ربیع الاول کے ساتھ خاص کر لیا گیا ہے،یہاں ان لوگوں کا ذکر ہی نہیں جن کی محبت و عشق ربیع الاول سے شروع ہو کر ربیع الاول پر ہی ختم ہو جاتا ہے،وہ لوگ جو اکابرین علماء دیوبند رحمہم اللہ کے خوشہ چین ہیں ،ان کے ہاں بھی رفتہ رفتہ سیرت پاک کے تذکرے صرف ربیع الاول تک ہی محدود ہوتے جا رہے ہیں،ظاہر ہے کہ ایسا کرنا صرف سیرت پاک کے عظیم موضوع کے ساتھ ہی نا انصافی نہیں بلکہ امت مسلمہ کے ساتھ بھی عظیم ظلم ہے۔
اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اگر کوئی خطیب ربیع الاول کے علاوہ سیرت پر بیان شروع کر دے یا کسی علاقے کے لوگ اس عنوان پر جلسہ رکھ لیں تو اس پر حیرت وتعجب کا اظہار کیا جاتا ہے حالانکہ سیرت پاک میں تو ساری انسانیت کیلئے عموما اور مسلمانوں کے لئے خصوصا راہنمائی ہے،پھر یہ رہنمائی کی ضرورت صرف ربیع الاول میں تو نہیں،پورے سال ور پوری زندگی کے لئے ہے۔
ماہ ربیع الاول کے ایک یا دو دن سیرت پاک بیان کر کے باقی پورے سال چھٹی،یہ عشق و محبت نہیں بے وفائی ہے۔سیرت پاک کے ساتھ صرف اس مہینہ کو مخصوص کر دینے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سیرت پاک کو ایک محدود موضوع سمجھ لیا گیا ہے،
حالانکہ آپ ﷺ کی ولادت با سعادت سے لے کر پوری حیات طیبہ کا جائزہ،آپ ﷺ کے نقوش حیات ،امتیازی اوصاف و خصائل،آپ ﷺ کی عبادات ،اخلاق گفتار اور معجزات و غزوات۔آپ ﷺ کی پسند و ناپسند ،حلیہ مبارکہ ،مسنون دعائیں ،انداز جنگ ،طریقہ تزکیہ اور ایسے بے شمار عنوانات ہیں جن کو بیان کرتے کرتے زندگی تو ختم ہو سکتی ہے لیکن یہ عنوانات اور ان کی تازگی ختم نہیں ہو سکتی۔

دوم :سیرت طیبہ ،علم برائے عمل
ہر جگہ تو نہیں لیکن عموما دیکھا گیا ہے کہ اب ربیع الاول میں ہونے والی محافل و مجالس میں سنجیدگی اور حسن نیت و عمل کے بجائے تفریح کا رنگ غالب آتا جا رہا ہے،یہ بات بظاہر معمولی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں غیر معمولی حادثہ ہے۔
آپ ﷺ کی پیروی ہمارے لئے سرمایہ نجات ہے اور اس کی توفیق تب ہی ملتی ہے،جب عمل کی نیت سے سیرت پاک کو سنا جائے۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاں لمبی چوڑی تقاریر اور بڑے بڑے جلسوں کا رواج نہیں تھا۔وہ تو عمل کے لوگ تھے اور عمل کی نیت سے ہی سب کچھ کہتے ،سنتے تھے۔انہوں نے سرکار دو عالم ﷺ کو جو فرماتے ہوئے سن لیا یا جو کرتے ہوئے دیکھ لیا ،پھر دنیا ادھر سے ادھر تو ہو سکتی تھی انہیں اسکی پیروی سے ہٹا نہیں سکتی تھی۔
اب صورتحال کیا ہے؟اس کی زیادہ منظر کشی کی ضرورت نہیں لیکن اتنا تو کل ہی ایک جگہ ٹریفک جام کے دوران میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں کہ سرکار دو عالم ﷺ کے نام نامی ،اسم گرامی پر جلوس اور موسیقی کی دھنوں پر نوجوان لڑکے تھرک رہے تھے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا ان سب کی یہ محنتیں ،عقیدتیں اور محبتیں ان کی نجات کے لئے کافی ہوں گی؟نہیں اور یقینا نہیں تو پھر ہمیں بھی سیرت پاک پر صرف زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی پیروی کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔

سوم : سیرت پاک ،ایک مکمل نمونہ عمل
ہمارے آقا ﷺ کی سیرت طیبہ ایک مکمل نمونہ عمل ہے،زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں ہمارے لئے سیرت پاک میں راہنمائی موجود نہ ہو لیکن اس کے باوجود ربیع الاول میں جب ہر طرف سیرت پاک کا چرچا ہوتا ہے ،آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی جا رہی ہوتی ہے،تب دانستہ طور پر سیرت طیبہ کے ایک اہم اور عظیم حصے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
آپ ﷺ کے غزوات ،سیرت طیبہ کا ایک ایسا چمکتا دمکتا اور مہکتا باب ہے ،جس کی رونق اور تازگی پر کسی کے بیان کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑھے گالیکن اس کو ذکر کیے بغیرنہ تو تذکرہ سیرت مکمل ہو سکتا ہے ،نہ ہی امت مسلمہ کو ذلت اور محکومیت کی پستیوں سے نکال کر عروج و ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ پورا ربیع الاول گزر جائے لیکن کسی مقرر اور نعت خواں کی زبان پر بدر ،احد ،احزاب ،بنو قریظہ ،حدیبیہ ،خیبر ،فتح مکہ ،حنین ،تبوک اور جیش اسامہ ؓ کا نام ہی نہ آئے ۔
سیرت کے مخفی گوشوں کی نقاب کشائی کرنے والے محققین اور دانشوروں کو سرکار دو عالم ﷺ کے گھر مبارک میں رکھی ہوئی دس تلواریں ،پانچ کمانیں ،پانچ نیزے ،دو جنگی ٹوپیاں ،دو ڈھالیں ،سات زرہیں اور آپ ﷺ کے زیر استعمال رہنے والے آٹھ جنگی گھوڑے نظر نہ آئیں۔
الحمد للہ !
اہل حق آج بھی کسی ملامت کی پرواہ کیے بغیر امت مسلمہ کو رسول اللہ ﷺ کی مسواک کے فائدے بتاتے ہیں تو ساتھ ہی آپ ﷺ کی تلوار کی برکتیں بھی بیان کرتے ہیں۔
وہ اگر آپ ﷺ پر درود شریف کے فضائل سناتے ہیں تو وہ آپ ﷺ کے سامنے پڑھے گئے جہادی ترانوں سے بھی اہل ایمان کے جذبات گرماتے ہیں۔
وہ معجزات نبوی ﷺ کے ساتھ غزوات نبوی ﷺ کے مشکبار تذکروں سے بھی اپنی محفلوں کو مہکاتے ہیں۔
اللہ کریم ہمیں بھی ایسے ہی اہل حق کی صفوں میں شامل فرمائے۔آمین
٭…٭…٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے