یہ لوگ اقبال ؒ سے کیوں خفا ہیں؟

محمد منصور احمد

علامہ اقبال کے یومِ ولادت پر چھٹی ختم کر دی گئی، یہ کوئی زیادہ اہم بات نہیں لیکن اصل بات جو پریشان ہونے کی ہے وہ یہ کہ آہستہ آہستہ تعلیمی نصاب اور قومی منظر نامے سے خود علامہ اقبال ؒ اور اُن کے افکار کی ہی چھٹی کروائی جا رہی ہے۔
ہمارے وہ مفکرین اور دانشور جو اپنی زبان اور اپنے قلم کی فیس ڈالروں میں وصول کر چکے ہیں وہ علامہ اقبال ؒ سے بہت خفا ہیں ۔
اُن کے خفا ہونے کی وجوہات بھی بالکل واضح ہیں۔ آئیں ! اُن میں سے کچھ وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اہلِ وطن کو پیسے کا غلام بن جانا چاہیے اور ہر کام میں پیسے کو ہی پیش نظر رکھنا چاہیے ، جبکہ اقبال فرماتے ہیں :
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کا دل جس سے دہل جائے وہ طوفان

شاعر ِ مشرق اور مصورِ پاکستان سے بیگانے یہ دانشور ‘ قوم کو صرف انگریزوں کا نقال بنانا چاہتے ہیں جب کہ اقبال بڑے دردِ دل کے ساتھ اپنی تمنا کا اظہار یوں کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جامِ گردش میں لا ساقیا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ سوز صدیقؓ دے
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر!
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
میرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے

زر پرست ‘ ضمیر فروش دانشور ‘ اپنی قوم کے نوجوانوں کو عیش و عشرت اور عیاشی و بدمعاشی کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں ‘ جب کہ اقبال تو اسی بات پر افسردہ اور پریشان ہیں:
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا شکوۂ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پائی میں نے استغناء میں معراج مسلمانی

یہ دانشور ‘ مسلمانانِ پاکستان کو صرف اپنے وطن تک محدود رکھ کر باقی امت مسلمہ سے کاٹنا چاہتے ہیں۔ خود تو یہ غیر ملکی فنکاروں ‘ اداکاروں اور کرکٹرز کے گن گاتے نہیں تھکتے لیکن ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیر و فلسطین ہی نہیں‘ مسجدِ اقصیٰ اور حرمین شریفین کو بھی بھول جائیں ۔ دیکھیں اقبال دونوں فریقوں میں سے کس کے ساتھ کھڑے ہیں:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہِ دیرینہ زمانہ کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر !
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ؐ
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

ان دانشوروں کے نزدیک اہل یورپ ہی سب سے زیادہ عقل مند لوگ ہیں اور ’’مستند ہے اُن کا فرمایا ہوا‘‘۔ یہ زندگی کے ہر طریقے میں اُنہی کی پیروی میں کامیابی خیال کرتے ہیں‘ جب کہ اقبال تہذیب ِ فرنگ کو انسانیت کیلئے تباہ کن اور گمراہ کن قرار دیتے ہیں:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
یہ علم یہ حکمت، یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟
وہ قوم کہ کے فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بے کار و زن تہی آغوش
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرتِ انساں کیلئے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کیلئے علم و ہنر موت
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل طاؤس و رباب آخر

ایسے دانشور ‘ جو قوم کو مزاحمت کے بجائے خود سپردگی کا اور دفاع کے بجائے غلامی کا سبق سکھاتے ہیں ‘ ایسے لوگ ہمیشہ تعلیم اور جہاد ‘ قلم اور تلوار کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کھڑا کرتے ہیں اور پھر قوم کو ترکِ جہاد کی تلقین کرتے ہیں ۔ دیکھیں اقبال کیسے ان کے باطل خیالات کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں:
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود بے اثر
تیغ وتفنگ دست ِ مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر!
تعلیم اس کو چاہئے ترکِ جہاد کی!
دنیا کو جس کے پنجۂ خونین سے ہو خطر
باطل کے فال وفر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر

ایک نظم میں تو اقبال نے بنیاد پرستی اور انتہاء پسندی کی حد ہی کر دی ۔ دورِ اول کے مجاہدین اسلام کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

اقبال کے ایسے خطرناک افکار و خیالات ہوتے ہوئے ‘ہمارے آج کے حکمران ، دانشور اور میڈیا اُن سے کیسے خوش ہو سکتے ہیں ۔شکر ہے کہ وہ اچھے وقتوں میں گزر گئے ورنہ نجانے آج کیا کیا الزام سہہ رہے ہوتے اور کن کن عدالتوں کے چکر لگا رہے ہوتے۔
بہت سے لوگوں نے اپنے غلط افکار و خیالات کیلئے اقبال مرحوم کے اشعار کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ناکام کو شش کی ہے لیکن میں جب اقبال مرحوم کا ایک فارسی مصرعہ پڑھتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ انہوں نے ‘ اپنے آپ کو لبرل اور سیکولر کہلانے والے لوگوں کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا ہے ۔
میرے نزدیک اقبال مرحوم کا سارا کلام ایک طرف اور یہ مصرعہ ایک طرف ، فرماتے ہیں:
’’ آبروئے ما ، زنامِ محمد(ﷺ) است‘‘
(میری تو ساری عزت و آبرو‘ حضرت محمد ﷺ کے نام سے ہی ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے