برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق عراقی سیکورٹی فورسز نے فائرنگ کر کے بغداد میں کم از کم 6 اور بصرہ میں 4 مظاہرین کو موت کی نیند سلا دیا۔

تاہم عراقی سیکورٹی فورسز نے کا کہنا ہے کہ بصرہ میں عوام دھرنا ختم کرانے کی کوشش کے دوران بعض "گمراہ شرپسند” عناصر نے شہریوں اور سیکورٹی فورسز پر آتشی ہتھیاروں کے ذریعے حملہ کیا

بغداد میں پولیس اور طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ جمعرات کے روز سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے دارالحکومت کے وسط میں کم از کم 6 مظاہرین ہلاک ہو گئے۔ طبی ذرائع کے مطابق الشہداء پُل کے نزدیک جھڑپوں میں 35 افراد زخمی ہو گئے۔ عراقی دارالحکومت میں مظاہروں اور احتجاج کا حالیہ سلسلہ 13 روز سے جاری ہے۔اس سے قبل بغداد آپریشنز کے کمانڈر نے باور کرایا تھا کہ رشید اسٹریٹ پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کرنے والی فورس کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دی گئے ہیں۔

عراق کے جنوب میں ام قصر بندرگاہ کے ذمے داران کے مطابق درجنوں مظاہرین نے ٹائر جلا کر بندرگاہ کا داخلی راستہ بند کر دیا۔ انہوں نے ٹرکوں کو خوراک اور دیگر سامان منتقل کرنے سے بھی روک دیا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے جمعرات کے روز مقامی حکومت کی عمارت میں جمع ہونے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست فائرنگ اور آنو گیس کے گولوں کا سہارا لیا۔

ادھر بغداد آپریشنز کے کمانڈر جنرل قیس المحمداوی نے العربیہ کو بتایا کہ اغوا ہونے والے مظاہرین کے معاملے کا جائزہ لیا گیا ہے اور نتائج کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

المحمداوی کے مطابق بغداد میں پُلوں کے نزدیک ہنگامہ آرائی کرنے والے 26 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تاہم 95% مظاہرین پُر امن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض بیرونی شرپسند عناصر کی جانب سے سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اب تک درجنوں سیکورٹی اہل کار زخمی ہو چکے ہیں۔ بغداد آپریشنز کے کمانڈر کے مطابق بعض فریق سیکورٹی چیک پوسٹس کے نزدیک سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم چاہتے ہیں۔

دوسری جانب عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری منصوبوں کو مفلوج کرنے کا مقصد روزگار کے ہزاروں مواقع ضائع کرنا ہے۔ جمعرات کے عراقی ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ حالیہ صورت حال کے باوجود حکومت اپنا کام جاری رکھے گی۔ عبدالمہدی کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے تیل سے ہٹ کر دیگر وسائل کو بڑھانے کے لیے کئی منصوبے وضع کیے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عراق میں یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے دوران پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں اب تک 280 افراد مارے جا چکے ہیں

البتہ عراقی حکام ایک ہفتے سے ہلاکتوں کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار کے اجرا سے روک رہے ہیں۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ نے جمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق عراقی سیکورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف براہ راست فائرنگ کا استعمال جاری ہے۔ اس سلسلے میں جاری ہونے والے ایک بیان میں عراقی فریقوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تشدد پر روک لگائیں اور حالیہ واقعات کے حوالے سے شفاف تحقیقات کو یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح اقوام متحدہ نے عراقی حکومت اور مظاہرین کے بیچ سنجیدہ بات چیت کا مطالبہ ایک بار پھر دُہرایا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے