قربِ نبوی پانے کا بہترین نسخہ

کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 671)

بشکریہ القلم

قیامت کی ہولناکی اور اس وقت کے خطرات سے کون مسلمان ناواقف ہوگا؟ کون شخص ہے جو یہ نہ چاہتا ہوگا کہ اس وقت رحمت للعالمین ا کا قرب اور پڑوس نصیب ہوجائے جو گناہگاروں کی شفاعت فرمائیں گے۔ آپ ا کے ہاتھ مبارک میں ’’لواء الحمد ‘‘ہوگا اور آپ ا اپنے دست اقدس سے آب کوثر عطاء فرمائیں گے۔ اگر قیامت کے دن آپﷺ کا قرب نصیب ہوجائے تو اس سے بڑھ کر کامیابی اور سعادت کیا ہوگی۔ بہت سی احادیث مبارکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے وہ اعمال بیان فرمائے ہیں جن کے ذریعے یہ عظیم نعمت حاصل کی جا سکتی ہے ۔

انہی اعمال میں سے ایک مبارک ، معطر اور منور وہ عمل ہے جس کا ذکر اس حدیث پاک میں ہے :

عن عبد اللّٰہ ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ، ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : اولی الناس بی یوم القیامۃ اکثر ھم علی صلاۃ( الترمذی ، صحیح ابن حبان )

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ حضور اکرم ا کا ارشاد گرامی ہے: ’’بلاشک قیامت میں لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ شخص ہوگا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔‘‘

کون مسلمان ہوگا جسے اﷲ کے رسول ا سے محبت کا دعویٰ نہ ہو، لیکن بہت کم لوگ ہیں جنہیں اس محبت کے لازمی تقاضوں کا شعور بھی ہوتا ہے اور وہ دعوائے محبت کے ساتھ عملی محبت کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین، تاجدار دوعالم ا کی محبت ہی ایمان کی بنیاد ہے، اس کے بغیر نہ کوئی شخص مسلمان ہوسکتا ہے نہ کوئی نجات اخروی کا مستحق، ایک صحیح حدیث شریف میں خود رسول اﷲ ا کا ارشاد ہے:

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین اور اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘

لیکن دنیا کی دیگر محبتوں اور تعلقات کی طرح اس محبت کے بھی کچھ عملی تقاضے اور مطالبے ہیں جن کو پورا کیے بغیر اپنے آپ کو محب اور عاشق کہنا، محبت اور عشق کی توہین ہے۔ دنیا کی فانی اور عارضی محبتوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ محب اور عاشق اپنی حرکتوں اور اداؤں سے پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں پر فریفتہ ہے، اس کا بولنا، چلنا، اٹھنا اور بیٹھنا بلکہ شکل اور چہرہ تک اس کی محبت کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں تو سرور کائنات ا کا عشق اور محبت ہو اور دیکھنے والوں کو پتہ نہ چلے کہ یہ محبوب کبریاء ا کا عاشق ہے، اس کا کردار وگفتار اس کی شکل وصورت، اسکے ناز وادا سے یہ نہ ٹپکتا ہو کہ یہ اﷲ کے محبوب ا کا محب ہے، یہ سب کیسے ممکن ہے؟

دل میں اگر حضور ہو سر خم تیرا ضرور ہو

جس کا نہ کچھ ظہور ہو وہ عشق، عشق ہی نہیں

عشق اور محبت بھی بھلا کوئی ایسی چیز ہے جو چھپانے سے چھپ جائے۔ علامہ شرف الدین بوصیریؒ قصیدہ بردہ میں کتنی پیاری بات فرماگئے:

فما لعینیک ان قلت اکففا ہمتا

وما لقلبک ان قلت استفتق بہم

ایحسب الصب ان الحب منکتم

ما بین منسجم منہ ومضطرم

’’تیری آنکھوں کو کیا ہوا کہ جب تو ان کو کہتا ہے کہ تھم جاؤ تو وہ بہہ پڑتی ہیں اور جب تو اپنے دل کو کہتا ہے کہ آرام کر تو وہ غمگین ہونے لگتا ہے۔ کیا عاشق یہ سمجھتا ہے کہ محبت چھپ سکتی ہے، حالانکہ بہتی ہوئی آنکھ اور آتش محبت میں سلگتا ہوا دل اس کی محبت کو ظاہر کرکے چھوڑتے ہیں۔‘‘

یوں تو رحمت عالم ا کی محبت کا دم بھرنے والوں کیلئے زندگی کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے ، پسند ناپسند کے معیار بدل جاتے ہیں اور جذبات وخیالات تک میں تبدیلی آجاتی ہے لیکن ہم یہاں حب نبوی ا کے صرف ایک تقاضہ یعنی درود شریف کی کثرت کا ذکر کر رہے ہیں ۔

درود شریف کی فضیلت واہمیت:

حقیقت یہ ہے کہ اگر درود شریف پڑھنے کا ہمیں حکم نہ ملتا اور نہ ہی اس پر فضائل وثواب کے وعدے ہوتے پھر بھی رسول اﷲ ا کے احسانات ہم پر اتنے بے شمار اور لازوال ہیں کہ اگر ہماری زندگیاں درود شریف پڑھتے گزرجاتیں تو بالکل بجا اور درست ہوتا لیکن اب جبکہ درود شریف پڑھنے کا حکم ہمیں خود قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا اور احادیث مبارکہ میں اس کے بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں تو کسی مسلمان کا اس میں کوتاہی کرنا انتہائی درجے کی محرومی کی بات ہے۔سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ درود شریف اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے:

’’بے شک اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں پیغمبر (ا ) پر۔ اے ایمان والو! تم بھی آپ (ا ) پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔ (سورۃ الاحزاب ۵۶)

اس آیت میں جس حسنِ تعبیر کے ساتھ اہل ایمان کو درود شریف کی ترغیب دی گئی ہے اسی کے پیش نظر حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ جمعہ کے دوسرے خطبے میں اس آیت سے پہلے یہ الفاظ کہتے تھے:

یا ایھا الناس ! ان اللّٰہ امرکم بامر بدافیہ بنفسہ ثم ثنی بملائکۃ قدسہ ثم ثلث بالمومنین من بریۃ انسہ و جنہ ،فقال تعالیٰ قولا کریما

’’اے لوگو! بے شک اﷲ تعالیٰ نے تمہیں ایسی چیز کا حکم فرمایا جسے خود اپنے سے شروع فرمایا پھر دوسرے نمبر پر اپنے فرشتوں کو اس میں شامل فرمایا اور تیسرے نمبر پر انسانوں اور جنات میں سے ایمان والوں کو یہ حکم دیا اور یوں ارشاد فرمایا: (پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرماتے تھے)

ایک درود دس رحمتیں:

حضور اکرم ا کا ارشادگرامی ہے: ’’جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے اﷲ جل شانہ اس پر دس رحمتیں بھیجتے ہیں۔‘‘ (مسلم)

اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کتنی عظیم رحمت ہے کہ انسان حضور ا پر درود شریف پڑھ کر اپنا فرض ادا کر رہا ہے لیکن وہ کریم مالک اس پر بھی محروم نہیں لوٹا تا بلکہ اپنے رحم وکرم کے مطابق ایک درود کے بدلے اپنی دس رحمتوں سے نوازتا ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تو ایک رحمت ہی عظیم ہے چہ جائے کہ ہر درود پر دس رحمتوں کا تحفہ!

اپنے معمولات میں سے کتنا  وقت درود شریف کیلئے:

حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ ’’یارسول اﷲ میں آپ پر کثرت سے درود بھیجنا چاہتا ہوں تو اس کی مقدار اپنے اوقات دعا میں سے کتنی مقرر کروں؟‘‘ حضور اکرم ا نے فرمایا: ’’جتنا جی چاہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اﷲ ایک چوتھائی؟‘‘ آپ ا نے فرمایا: ’’تجھے اختیار ہے اور اگر اس پر بڑھادے تو تیرے لیے بہتر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا : ’’نصف کردوں؟‘‘ آپ ا نے فرمایا: ’’تجھے اختیار ہے اور اگر بڑھا دے تو تیرے لیے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’دو تہائی کردوں؟‘‘ آپ ا نے فرمایا: ’’تجھے اختیار ہے لیکن اگر اس سے بڑھادے تو تیرے لیے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اﷲ پھر میں اپنے سارے وقت کو آپ پر درود کے لئے مقرر کرتا ہوں۔‘‘ حضور اکرم ا نے فرمایا: ’’تو اس صورت میں تیری ساری فکروں کی کفایت کی جائے گی اور تیرے سارے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔ ‘‘  (ترمذی)

اس حدیث شریف کا مطلب صاف واضح ہے کہ انسان کی دو طرح ہی کی ضروریات ہوسکتی ہیں۔ دنیاوی یا اخروی۔ جو شخص کثرت سے درود شریف پڑھے گا اﷲ تعالیٰ اسے دنیا کے افکار سے بھی مطمئن فرمادیں گے اور آخرت کے مراحل میں سب سے مشکل مرحلہ طے ہوجائے گا یعنی گناہوں کی معافی بھی عطا ہوجائے گی۔

درود شریف، صدقہ کا نعم البدل:

آپ ا کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس کے پاس صدقہ کرنے کو کچھ نہ ہو وہ یوں دعا مانگا کرے، ’’اے اﷲ! درود بھیج محمد ا پر جو تیرے بندے ہیں اور تیرے رسول ہیں اور رحمت بھیج مومن مرد اور مومن عورتوں پر اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتوں پر ۔ پس یہ دعا اس کے لیے زکوٰۃ یعنی صدقہ ہونے کے قائم مقام ہے اور مومن کا پیٹ کسی خیر سے کبھی نہیں بھرتا یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے۔‘‘ (صحیح ابن حبان بحوالہ فضائل درود شریف)

اﷲ تعالیٰ کی رحمت امیر وغریب ہر کسی کے لئے ہے اور فارسی کا یہ مقولہ بالکل بجا ہے:

’’رحمت حق بہانہ می جوید، بہانمی جوید‘‘

کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت تو صرف بہانہ ڈھونڈتی ہے، اپنی قیمت نہیں طلب کرتی۔ اس حدیث شریف میں بھی غریب مسلمانوں کیلئے کتنی بڑی خوشخبری کا سامان ہے کہ وہ اپنی مالی حالت کے باوجود بھی صدقہ کے فضائل حاصل کرسکتے ہیں اور اس کا طریقہ رسول اﷲ ا پر مذکورہ درود شریف بھیجنا ہے جس کے عربی الفاظ یوں ہیں:

’’اللہم صل علی محمد عبدک ورسولک وصل علی المومنین والمومنات والمسلمین والمسلمات‘‘

درود شریف کے فضائل،  ایک نظر میں:

بعض علماء کرام نے ذخیرہ احادیث میں پھیلے ہوئے فضائل کو چند جملوں میں جمع کرنے کی کوشش کی ہے، جسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں:

حضور ا پر درود شریف پڑھنے کا ثواب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود اپنے بندے پر درود بھیجتا ہے اس کے فرشتے اور حضور ا اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔ یہ درود شریف پڑھنے والے کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور اس کے اعمال کو پاکیزہ بنادیتا ہے اور اس کے درجات کو بلند کردیتا ہے۔ خود درود شریف اس کے لئے مغفرت طلب کرتا ہے اور اس کے نامہ اعمال میں ایک قیراط کے برابر ثواب لکھا جاتا ہے اور وہ قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ ایسے شخص کے اعمال بروز قیامت ترازو میں تولے جائیں گے۔ جو شخص اپنے اوپر اوراد و وظائف کو درود شریف بنادے اس کے دنیا وآخرت کے کاموں میں کفایت کی جائے گی۔ درود شریف پڑھنے کا ثواب غلاموں کے آزاد کرنے سے زیادہ ہوگا۔ اس کی وجہ سے خطرات سے نجات ملے گی۔ قیامت کے دن ایسے شخص کیلئے نبی کریم ا شاہد اور گواہ بنیں گے اور آپ ا کی شفاعت اس کیلئے واجب ہوجائے گی۔ درود شریف پڑھنے والے پر اﷲ کی رحمت اور رضا نازل ہوگی۔ اﷲ کی ناراضگی سے محفوظ ہوگا۔ قیامت کے دن عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔ ترازو میں نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا حوض کوثر پر حاضری کی سعادت ملے گی اور قیامت کے روز سخت پیاس سے بچا رہے گا۔ پلِ صراط پر سہولت ہوگی اور جہنم کی آگ سے دور رہے گا۔ مرنے سے پہلے اپنا ٹھکانہ جنت میں دیکھ لے گا۔ یہ درود اس کیلئے صدقہ کے قائم مقام ہوگا۔ درود شریف بے شک نور ہے اور دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے کا ذریعہ، دلوں کو نفاق اور زنگ سے پاک کردیتا ہے۔

درود شریف کے فضائل پر حضرات علماء دیوبند رحمہم اﷲ نے اپنی دیگر تصانیف کے ضمن میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ انتہائی قابل قدر ہے لیکن بعض بزرگوں نے اس مبارک موضوع پر مستقل رسالے بھی تحریر فرمائے ہیں۔

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ’’زاد السعید‘‘ کے نام سے اور حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ نے ’’فضائل درود شریف‘‘ کے نام سے مستقل رسالے لکھے ہیں جو اپنے موضوع میں بے مثال ہیں۔ ان دونوں رسالوں میں چہل حدیث کے عنوان سے درود وسلام کے چالیس ماثور صیغے بھی لکھے گئے ہیں جو عشاق نبی ا کے لئے انتہائی مفید اور قابل توجہ چیز ہیں۔

حکیم العصر حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اﷲ نے بھی شیخ مخدوم ہاشم سندھی رحمہ اﷲ کی اس موضوع پر بے مثال کتاب ’’ذریعۃ الوصول الی جناب الرسول ا ‘‘ کا اردو ترجمہ اور تلخیص شائع فرمائی جو قابل مطالعہ ہے۔ ہم اس موضوع کو عربی کے اس شعر پر ختم کرتے ہیں:

یصلی علیہ اﷲ جل جلالہ

بہذا بدأ للعالمین کمالہ

آپ ا کا کمال سارے جہانوں پر اس سے واضح ہے کہ خود ذات باری تعالیٰ آپ ا پر درود بھیجتی ہے۔

قیامت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور معیت نصیب ہونے کا وعدہ جن اعمال پر ہے ، اُن میں سے کچھ کا تذکرہ گذشتہ مضامین میں لکھا جا چکا ہے اور کچھ کا تذکرہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آئندہ لکھا جائے گا ۔ان شاء اللہ تعالیٰ

اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ سعادت ِ عظمیٰ اور نعمت کبریٰ حاصل کرنے کا ذوق و شوق عطاء فرمائے ۔ (آمین ثم آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے