!جیت ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی

محمد اشفاق

میاں نواز شریف اور مریم نواز جیل سے ہسپتال اور ہسپتال سے بالآخر شہباز شریف کی حفاظتی تحویل میں دے دیے گئے ہیں۔

ڈیل ہو چکی یہ تو واضح ہے مگر اتنی ہی واضح یہ حقیقت بھی ہے کہ جن دو شخصیات نے اس ڈیل کی بہت بھاری سیاسی قیمت چکانا ہے، یعنی ہمارے موجودہ و سابقہ وزرائے اعظم، ان دونوں ہی کا اس میں کردار محض خاموش تماشائی کا ہے- عمران خان کے اختیار میں ہوتا تو یہ ڈیل وہ کبھی نہ کرتے، نواز شریف کے بس میں ہوتا تو ان شرائط پر کبھی نہ کرتے۔

دوسرے درجے کے کچھ سیاسی راہنماؤں نے ہمارے قومی اور غیر جانبدار ادارے کے کچھ دوسری صف کے افسران سے مل کر کچھ دوطرفہ مفادات اور یقین دہانیوں کے عیوض سمجھوتہ کر لیا۔ شہباز شریف مصر ہیں کہ یہ سمجھوتہ قائد، جماعت اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے- افسران خان صاحب کو بتا رہے کہ یہ سمجھوتہ حکومت اور قوم کے بہترین مفاد میں ہے-

ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ نون لیگ کے دو محبوب اور مقبول ترین راہنما آج بظاہر آزاد ہوئے ہیں مگر جماعت کے حامی و کارکنان اسے اپنی کامیابی قرار دے کر حکومت کی بے بسی کا مذاق اڑانے سے گریزاں ہیں۔

مزید ستم ظریفی یہ کہ نواز شریف جس کیلئے چند روز قبل تک پورے سروسز ہسپتال کی طبی سہولیات اور ملک کے ایک درجن قابل ترین ڈاکٹروں کا بورڈ بھی ناکافی بتایا جا رہا تھا اب جاتی امرا میں اس کا بیڈروم ہی آئی سی یو قرار پا گیا ہے- یہ اتنی لوز بال ہے کہ بالر اگر نواز شریف ہوتا تو حکومتی وزراء اب تک چھکے چوکوں کی برسات کر چکے ہوتے۔ مگر وہ مہر بہ لب ہیں، بقول فلمی شاعر

ہماری بےبسی یہ ہے کہ ہم کچھ کہہ نہیں سکتے
وفا بدنام ہوتی ہے جو ہم فریاد کرتے ہیں

موجودہ سیاسی بحران جس کروٹ بھی بیٹھتا ہے آخری تجزیے میں یہ اسٹیبلشمنٹ کو مزید مضبوط کرنے کا باعث بنے گا۔ حکومت اپنی بقا کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی محتاج ہے اور اسلام آباد میں ڈٹے ہوئے مظاہرین اسے گرانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کے منتظر۔ شہباز شریف کی مسلم لیگ نے بھی اسٹیبلشمنٹ کی پھینکی ہڈی چبائی ہے اور بلاول کی پیپلز پارٹی بھی اپنے حصے کے نوالے کیلئے انہی ہاتھوں پہ نظریں جمائے بیٹھی ہے۔

اس سارے منظرنامے سے آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا نتیجہ نکلنے کے منتظر سب حضرات کی رائے کے احترام کے ساتھ ان سے پیشگی تعزیت۔

جناب عمران خان کو اپوزیشن کو توڑنے اور دیوار سے لگانے کے عمل کو اپنا کندھا فراہم کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا چاہئے تھا۔

اور مولانا کو اسلام آباد پہ چڑھائی کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا چاہئے تھا۔

اپنی اپنی فیس سیونگ کیلئے دونوں ہی اب تیسری طاقت کے محتاج ہیں۔ اس ڈرامے کے اختتام پر فتح کے دعوے دونوں ہی کریں گے اور ایک دفتر میں بیٹھے کچھ لوگ دونوں ہی کے دعوؤں پر قہقہے لگائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے