اسلام آباد: جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ حکومت اس اجتماع کو سنجیدہ لے، مذاکرات کی ضرورت نہیں، آنا ہے تو وزیراعظم کا استعفی لیکر آؤ، کبھی کہتے ہیں دھاندلی کے لیے قومی کمیشن بنایا جائے، جس چوری کی گواہ پوری قوم ہو اس کی تحقیق نہیں استعفی ہوتا ہے، اب آپ کو کوئی این آر او نہیں ملے گا۔

آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے امیر کا کہنا تھا کہ ہمارے دھرنے کے شرکا نےآئین و قانون کی پاسداری کی، کارکنوں نے نظم وضبط اور امن کا پیغام دیا ہے، آزادی مارچ نے مغربی میڈیا کا منفی تاثر زائل کر دیا۔ آزادی مارچ نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے پندرہ ملین مارچ پرامن طریقے سے کیے۔

مولانا فضل الرحمن کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے پورے ملک سے کنٹینر منگوائے، کنٹینرزکی وجہ سے ملک کوکروڑوں کانقصان پہنچایا گیا، کنٹینرز لگانے کی وجہ سے ملک کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا، آزادی مارچ سے کوئی شہری پریشان نہیں ہوا، ہے کوئی ادارہ جویہ حساب لے، کل اگر امن خراب ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی فنڈنگ کے حوالے سے امیر جے یو آئی کا کہنا تھا کہ پانچ سال سے پارٹی فنڈنگ کیس چل رہا ہے، یہ کیس زیر التوا ہے، بیرون ملک سے اکٹھا کیا گیا فنڈز کہاں گیا؟

پاک فوج کے ترجمان کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ میرے متعلق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کے بیان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ واضح کر دیا فوج غیر جانبدار ادارہ ہے۔ دوران تقریر آزادی مارچ کے شرکاء نے پاک فوج کے حق میں بلند شگاف نعرے لگائے۔

آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی بہن کے پاس دبئی میں 60 ارب کہاں سے آئے؟

اس سے قبل جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن ان حکمرانوں کے خلاف فیصلہ نہیں کر پا رہا، دوسری جانب سینئر سیاستدانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔

صحافیوں سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ میں آصف علی زرداری کے لیے دعاگو ہوں، میری دعائیں ان کے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے۔ جو ملک چلانے کے سلیقے جانتا ہے، ان کو جیل میں ڈال کر نااہل لوگوں کو مسلط کیا گیا۔ نااہلوں کو حکومت عطا کر دی گئی ہے تو ملک کیسے چلے گا؟ بنیادی طور پر سیاسی قیادت کی گرفتاری ناجائز عمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی ٹاپ لیڈر شپ انتہائی قابل احترام ہے، ان کے ساتھ جو رویہ روا رکھا ہوا ہے، وہ انتہائی گرا ہوا کردار ہے جو اس وقت حکومت کے ایوانوں سے قوم کے سامنے آ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک پر قابض افراد پتھر دل لوگ ہیں جو سیاسی قیادت پر جبر روا رکھے ہوئے ہیں۔ ان سیاست دانوں کی عمر 70 سال سے بھی تجاوز کر چکی لیکن وہ استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے