اسلام آباد:  جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ بات بڑی صاف ہے، ہم دھاندلی کی حکومت نہیں مانتے، دوبارہ الیکشن کے مطالبے پر قائم ہیں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔

انہوں نے دھرنے کے چھٹے روز شرکا سے خطاب میں کہا کہ اب مرضی تمہاری ہے، اگر چاہتے ہو کہ اجتماع ختم ہو جائے تو پھر اعلان کردو، خود بھی اور ہم بھی مشکل سے نکل جائیں گے، ہم کوئی کمیشن نہیں مانیں گے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 2014ء میں 126 دن کے دھرنے پر اعتراض کیوں نہیں تھا؟ اور آج تمام حزب اختلاف کی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں تو اس پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ ہم مطالبے کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ساتھیوں کو اشتعال دلانے کی کوششوں کو ختم ہونا چاہیے۔ ہم نے نظم وضبط کا مظاہرہ کیا، ہمارے مطالبات کو ماننا پڑے گا۔ آنے والا وقت عوام اور پارلیمان کی بالادستی کا ہے۔ یہ آزادی مارچ آنے والے مستقبل کے انقلاب کی نوید دے رہا ہے۔ آزادی مارچ نے دنیا کو بتا دیا کہ انتقام کے نام پر احتساب کا ڈرامہ مزید نہیں چل سکے گا۔ جمعیت علمائے اسلام کا اپنا ایک منشور ہے جو صوبائی خود مختاری کی بات کرتا ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ آج ہم خارجی محاذ پر تنہا ہیں۔ افغانستان کیساتھ ہم اعتماد قائم نہیں رکھ سکے۔ چین کی دوستی کو دنیا کے سامنے مثال کے طور پر پیش کیا کرتے تھے۔ موجودہ حکومت نے چین کی سی پیک سرمایہ کاری کو غارت کرکے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک سال میں تین بجٹ کی روایت ڈالی۔ پاکستان تیزی کے ساتھ معاشی طور پر گر چکا ہے۔ اگر ایک بجٹ مزید پیش کرنے دیا گیا تو پاکستان کا آخری دن ہوگا۔ ان کو مزید وقت دیا تو روزانہ کی بنیاد مزید نیچے کی طرف جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کشمیر کمیٹی میرے پاس تھی، کوئی مائی کا لعل کشمیر نہیں بیچ سکا، آج کشمیر کو بیچ کر روتے ہیں۔ جو کچھ بھارت نے کیا، یہی ان کا ایجنڈا تھا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر ظلم ہوگا تو اسے ببانگ دہل ظلم ہی کہیں گے۔ قوم سے کیوں جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ آؤ سچ کی طرف آؤ، آئیں ہم مل کر چلیں۔ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں، ملک کو اصول کی بنیاد پر چلایا جائے۔ ملک کو ان حالات کی طرف کیوں دھکیلا جا رہا ہے؟ اس طرح جب سیاست چلے گی تو پھر انصاف نہیں ہوگا۔ اگر ملک میں آئین اور جمہوریت ہے تو پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ بنے گی تو عوام کے ووٹ سے بنے گی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ الیکشن میں ہمارے پولنگ ایجنٹس کو نتائج نہیں دیئے گئے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالا گیا۔ 95 فیصد فارم 45 نہیں دیئے گئے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے بعد اب انویسٹی گیشن کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنا دیتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی بنے ایک سال ہوگیا، ایک اجلاس تک نہیں ہوا۔ ہم نے چور کو دن دہاڑے چوری کرتے پکڑا، اب کہتے ہیں تحقیقات کر لیں میں چور ہوں یا نہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے