کہاوت ہے کہ: "چادر کے مطابق پاؤں کو پھیلاؤ!” مطلب اپنی صلاحیت سے زیادہ کام اور بات نہ کرو!” اپنی صلاحیت سے بالاتر ہو کر بولنے سے نہ صرف اسی شخص کو فائدے کے بجائے  نقصان پہنچتا ہے۔ مایوس اور شرمندہ کرنے کا بھی سبب بنتا ہے۔

کٹھ پتلی حکومت کی سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین آصف صدیقی نے اپنی صلاحیت سے بالاتر بات کرتے ہوئے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ افغان امن کے لیے اپنے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کو ذاتی مفاد کے لیے کام کرنے پر اس عہدے سے ہٹائے اور ان کے بجائے نیا نمائندہ مقرر کیا جائے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی غلام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے آقا کو کسی کام پر مشورہ دے یا اس کے فیصلے پر تنقید کرے۔ کیوں کہ غلام کا کام محض اپنے آقا کی اطاعت کرنا ہے اور اس کا حکم بجا لانا ہے۔

کچھ مہینے پہلے کابل انتظامیہ کی قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب نے بھی ایک بار ایسی بات کرنے کی غلطی کی تھی، جس کی انہیں بھاری قیمت چکانا پڑی۔ کافی کوششوں کے بعد بھی ان کا مالک ناخوش ہے۔

دوسرا یہ کہ کابل انتظامیہ کے حکام اگر واقعی قومی اقدار اور مفادات کی بنیاد پر خلیل زاد کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو پھر انہوں نے کبھی کسی امریکی جرنیل کی برطرفی کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ حالاں کہ امریکی جرنیلوں نے بہت سے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

اس طرح کی باتیں کرنے سے کابل انتظامیہ کے حکام اپنا امن مخالف چہرے بے نقاب کرتے ہیں۔ وہ گندے پانی میں مچھلی پکڑنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مختلف بہانوں سے جارحیت کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیوں کہ اس جنگ کی وجہ سے انہیں مراعات مل رہی ہیں۔ وہ لاکھوں ڈالر، مہنگی گاڑیوں اور بلند عمارات کے مالک بن چکے ہیں۔ وہ قیام امن کے بعد ایک خودمختار اور طاقت ور حکومت کے آنے سے خوف زدہ ہیں۔ کیوں کہ وہ پھر ان مراعات سے محروم رہیں گے۔ بلکہ ان کا احتساب بھی ہوگا۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے