اسلام آباد: حکومتی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے استعفی کا سوال پیدا نہیں ہوتا، جب افراتفری پھیلتی ہے تو اداروں کو آگے آنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا بیان پر حکومت اپوزیشن کیخلاف عدالت جا رہی ہے۔ وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا بیان بغاوت ہے۔

پی ٹی آئی کو کمیٹی کے اجلاس کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی پریس کانفرنس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے وعدے پر قائم ہیں، اپوزیشن کو بھی اپنے معاہدے پر رہنا چاہیے، اگر یہ معاہدے پر نہیں رہتا تو قانون حرکت میں آئے گی اور حکومت لاچار نہیں ہوتی، وزیراعظم کے گھر میں جا کر استعفی لینا خام خیالی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگے آنا ہوتا ہے۔

کور کمیٹی کے فیصلے کے سوال کے جواب میں حکومتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے احتجاج کے معاملے اور وزیراعظم کے گرفتار کرنے کے بیان پر عدالت جا رہے ہیں، پیر والے دن عدالت جائیں گے۔ وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا بیان بغاوت ہے۔

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ افراتفری پھیلانے کے مقاصد سب کے سامنے ہے، قانون حرکت میں آیا تو ان کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے معاہدہ نہ کیا ہوتا تو جو مرضی کرتے، لیکن معاہدے پر انہیں قائم رہنا چاہیے۔

وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ ان کو ڈر ہے کہ اگر ہم اپنی حکومت میں کام کر گئے تو ان کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت عمران خان نہیں، اس میں ادارے موجود ہیں، انہوں نے انہی اداروں کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے، اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو ایکشن ہو گا، یہ لوگ یاد رکھیں کہ عدالتی فیصلے بھی انکے سامنے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کشمیر کاز ہمارا پہلا ایجنڈا ہے۔ ملک میں اس وقت غیر یقینی صورتحال کشمیر کاز پر نہیں آنی چاہیے۔ کشمیر کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے جتنا سٹینڈ لیا اتنا کسی نے نہیں لیا، انہوں نے اقوام متحدہ میں شاندار تقریر کی، کشمیر کمیٹی کے سربراہ جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا چیئر مین رہے تو میں ان سے پوچھتا ہوں انہوں نے کیا کیا۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن والوں نے حکومت پر کم اداروں پر تنقید کی ہے، اس کا جواب پاک فوج کی طرف سے آ گیا ہے، پاک فوج نے ملک کے لیے جانیں قربانیاں دیں اور امن لائے۔ علاقہ غیر کو صاف کرنا، کے پی کے میں امن لانا اور ملک میں امن لانا پاک فوج کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ میاں شہباز شریف کہتے ہیں ادارے 10 فیصد ہمارے ساتھ دیتے تو مسائل حل کر لیتے تو ان کو کہنا چاہتا ہوں میاں نواز شریف کن اداروں کے سہارے آگے، اب اداروں غیر سیاسی ہو گئے ہیں، ہمیں کوئی بھی ادارہ نہیں سپورٹ کر رہا۔ تمام ادارے ریاست کے حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 30 ہزار یا 50 ہزار کے قریب لوگ آ کر وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنا خام خیالی ہے، اس طرح استعفے نہیں لیے جاتے۔

الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہم بھی یہی کہتے تھے، ہم الیکشن کمیشن گئے، عدالت گئے، سپریم کورٹ گئے جس پر ہمیں کوئی انصاف نہیں ملا تو ہم نے دھرنا دیا، موجودہ اپوزیشن نے دھاندلی کے نام پر صرف باتیں کیں، میں حکومت کی طرف سے قائم کمیٹی کا سربراہ ہوں میں کہتا ہوں یہ مجھے ثبوت دیں، دھاندلی کے بارے میں مجھے بتائیں لیکن یہ ثبوت دینے کا نام نہیں لے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن کو الیکشن میں ایک مرتبہ چیلنج کیا ہے، مولانا صاحب کو ان کو جواب دینا چاہیے۔

پرویز خٹک کا مزید کہنا تھا کہ ہم پہلے ان پر اعتماد نہیں کرتے تھے تاہم معاہدہ ہوا، مجھے امید ہے کہ اپوزیشن کی میٹنگ میں جو فیصلے ہوں گے وہ ملک کے حق میں ہوں گے، کیونکہ اپوزیشن میں اچھے لوگ موجود ہیں۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ میں ایک مرتبہ پھر کہنا چاہتا ہوں کہ اگر قانون کی خلاف ورزی کی توریاست حرکت میں آئے گی، مذاکرات کے ساتھ ساتھ یہ حملے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہم نے جھنڈوں والوں کو نہیں بلایا تھا بلکہ احتجاج کے لیے سیاسی لوگوں کو بلایا تھا، اگر یہ جھنڈے والوں کو لائے ہیں تو یہ زیادتی کر رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ممبر اسد عمر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کہتے ہیں کہ ادارے ہمارے ساتھ 10 فیصد بھی ہوتے تو ہم مسائل حل کر لیتے میں ان سے سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا فوج نے معیشت، پولیس، سکول اور کچہری ٹھیک کرنے سے انہیں روکا تھا؟

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ کشمیر کاز پر وزیراعظم عمران خان نے بہت زیادہ متحرک اپنا کردار ادا کیا ہے، جب سے اپوزیشن والے احتجاج کر رہے ہیں کشمیر پر دھیان ہٹ گیا ہے، اس کا فائدہ ہمارے دشمن کو ہو رہا ہے، بھارتی میڈیا اس احتجاج کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے چار حلقے کھولنا کا مطالبہ کیا تھا، پھر ہم احتجاج کی طرف آئے تھے۔ ان لوگوں کا ایجنڈا غیر واضح ہے۔

حکومتی کمیٹی کے ممبر اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ میں لبرل بلاول بھٹو زرداری کو کہنا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پہلے سال افراط زر 20 فیصد تھی، مسلم لیگ ن کے دور میں پہلے سال افراط زر 11 فیصد تھی، یہ لوگ جو بات کرتے ہیں تو ان کو پہلے اپنا ماضی یاد رکھ لینا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے