مقبوضہ کشمیر میں ظلم اور بربریت ،خوف اور دھمکیوں کی کہانیاں نہ رک سکیں ،بھارتی صحافی اشوک سوائین مزید چشم کشا حقائق سامنے لے آئے۔رات کے اندھیرے میں چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری، اشوک سوائین کی ممتاز بھارتی اخبار دی ہندو میں تازہ رپورٹ جاری کر دی ،جوانوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں اور بچوں پر تشدد اور ان کی گرفتاریاں روز کا معمول بن گئیں،بھارتی فوجی نہتے کشمیریوں کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔بھارتی فوج نے دھمکیاں دیں کہ کسی نے بھی میڈیا سے بات کی تو برا حشر کریں گے،رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر میں وامہ اور شوپیاں کے عوام بھارتی فوج کا خاص نشانہ ہیں۔ اشوک سوئین نے کہاکہ شمالی کشمیر میں باندی پورا اور سوپور میں بھی صورتحال مختلف نہیں،بھارتی سرکار نے عوام سے تشدد اور بربریت کی شکایت کا حق بھی چھین لیا ہے۔انہوںنے کہاکہ کشمیری عوام کو میڈیا سے دور رکھنے کے لئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔انہوں نے کہاکہ تشدد اور دباو کے نت نئے طریقے متعارف کرائے جارہے ہیں،شوپیاں میں گرفتار ہونے والے 26 سالہ نوجوان کو جیپ سے باندھ کر گھسیٹا گیا ،راشٹریہ رائفل کیمپ میں اسے برہنہ کر کے یخ بستہ پانی میں غوطے دئیے گئے۔ اشوک کے مطابق غوطے دینے کے بعد اسے ایک بودبودار سیال مادہ پینے پر مجبور کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اسے بعد میں بجلی کے کھمبے سے باندھ کر تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ الیکٹرک شاکس بھی دئیے گئے،چیل پورہ اور ترن کے علاقوں میں بھی ایسی کہانیاں عام ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا کہ لوگوں نے خوف کے مارے اپنے لب سی رکھے سی رکھے ہیں،پنجورا نامی گاوں میں لوگوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا،علاقہ کے باقی لوگوں کو جنسی تشدد کی دھمکیاں دی جارہی ہیں،لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں،پلوامہ میں تاجر بھی میڈیا سے بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ ہمیں دھمکی دی گئی ہے کہ میڈیا سے بات کی تو ہمارے بچوں کو پکڑ کر ایک ہزار کلومیٹر دور عقوبت خانوں میں بھیج دیا جائے گا۔
بند دکانوں کے باہر بیٹھے تاجروں نے انکشاف کیا کہ یہ سب دھمکیاں پبلک سیفٹی جیسے ڈریکونئین قانون کے نام پر دی جاتی ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیاکہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی کو بھی مقدمہ چلائے بغیر چھہ ماہ سے دو سال تک قید رکھا جاسکتا ہے۔صحافی نے کہاکہ نئی دہلی نے اپنے انڈر کور ایجنٹ علاقہ میں داخل کر دئیے ہیں،کشمیری ووام ہم خوف اور ان بھارتی ایجنٹس کے ڈر سے سیاست پر بات ہی نہیں کر سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے