آج کی بات

کچھ بین الاقوامی تنظیموں اور حلقوں نے کہا ہے کہ امارت اسلامیہ کو تشدد کم کرنا چاہیے۔ امن کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کابل انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔ امارت اسلامیہ نے بار بار اپنا اصولی اور معقول موقف واضح کیا ہے اور جاری جنگ اور تشدد کے خاتمے کے لیے بہت سی کوششیں کی ہیں، لیکن بین الاقوامی تنظیموں نے جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی معنی خیز اور غیرجانبدارانہ کوشش نہیں کی ہے!!

افسوس ناک امر یہ ہے کہ بین الاقوامی تنظیموں اور حلقوں نے حملہ آوروں کے حملوں، جنگوں اور بدعنوانی کی حمایت کی ہے۔ مظلوم لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو نظرانداز کیا ہے۔ براہ راست اور بلاواسطہ حملہ آوروں کی ناجائز حرکتوں کی حمایت کی اور مختلف ناموں اور بہانوں سے مقبوضہ ممالک پر حملہ آوروں کی جارحیت کے لیے جواز فراہم کی کوشش کی ہے۔

افغانستان بھی ان ممالک کی فہرست میں آتا ہے، جہاں بین الاقوامی تنظیموں نے قابض امریکی فوج کی جارحیت کی حمایت کی ہے۔ جائز اور قومی خودمختاری کی حامل حکومت کے خاتمے کے لیے حملہ آوروں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کی ہے۔ یہ تنظیمیں اب بھی قابض افواج کے خلاف غیور افغان عوام کی مزاحمت کو جرم قرار دینے کی کوشش کر رہی ہیں، تاکہ قابض افواج کے ظالمانہ قبضے اور کٹھ پتلی حکومت کی بقا کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔

افغانستان پر امریکی جارحیت سے پہلے یہاں مثالی امن قائم تھا۔ عوام کی عزت، دولت اور تمام حقوق محفوظ تھے۔ ملک آزاد اور خودمختار تھا۔ ملکی سالمیت کو کوئی خطرہ درپیش نہیں تھا۔ ملک کے اندر غیر ملکی طاقت نہیں تھی۔ لسانی اور قومی تعصبات نہیں تھے۔ اخلاقی اور مالی کرپشن کا کوئی تصور نہیں تھا۔ مجموعی طور پر ملک کے 95 فیصد حصے میں اسلامی اور قومی حکومت قائم تھی۔

جب قابض امریکی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا تو انہوں نے اپنے غلاموں کے ساتھ مل کر ہماری اسلامی اور قومی اقدار اور آزادی کو پاؤں تلے روندا۔ بدعنوانی، خونریزی، نسلی تعصب اور بدامنی کو فروغ دیا اور ایک خونریز اور طویل جنگ کی بنیاد ڈالی، جس کے نتیجے میں افغانستان اور افغان قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

ملک پر ظالمانہ اور ناجائز قبضہ ہی جاری جنگ اور تمام بحرانوں کا بنیادی سبب ہے۔ قبضہ اور امن، "آگ اور پانی” کی طرح اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

بین الاقوامی تنظیموں کو افغانستان پر قبضہ ختم کرنے میں ہماری مدد کرنی چاہیے۔ اگر ہم سے تعاون نہیں کر سکتے تو وہ ہمارے ملک پر قبضہ جاری رکھنے کے لیے قابض قوتوں کی مدد بھی نہ کریں۔ جارحیت کا خاتمہ افغان عوام کا پہلا اور آخری مطالبہ ہے۔ امارت اسلامیہ اس وقت تک اپنی اسلامی اور قومی ذمہ داری کی بنیاد پر مزاحمت جاری رکھے گی، جب تک کہ یہ ملک آزاد اور اس میں اسلامی نظام کے نفاذ کا سورج طلوع نہیں ہوگا۔

وما ذالک علی اللہ بعزیز

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے