آج کی بات

کابل انتظامیہ کے سربراہ کے ترجمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ افغانستان کو اب بھی غیرملکی فوجیوں کی ضرورت ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ غیرملکی افواج کو اس وقت تک جنگ جاری رکھنی چاہیے، جب تک امریکا اور افغانستان کے لیے "درپیش خطرات” کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔

کابل انتظامیہ کے ترجمان عموماً قابض افواج کے انخلا کی ڈیل کے دوران اس طرح کے بیانات دیتے ہیں۔ جب امارت اسلامیہ اور امریکی مذاکرات کاروں کے مابین بات چیت جاری تھی تو کابل انتظامیہ کے سربراہ نے بھی ڈونلڈٹرمپ پر زور دیا تھا کہ وہ تمام فوج واپس نہ بلائیں۔ ہم امریکا کے اخراجات کم کریں گے۔

سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کیا واقعی افغانستان کو غیرملکی افواج کی ضرورت ہے؟ غیرملکی افواج کی موجودگی آزادی اور سالمیت پر کھلی جارحیت ہے۔ اس جارحیت کے خلاف جدوجہد کرنا دینی اور قومی ذمہ داری ہے۔ افغان عوام امارت اسلامیہ کی قیادت میں گزشتہ 19 سال سے یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ پر سمجھوتہ کیا جائے؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی بھی چیز آزادی اور اسلامی نظام کے مقابلے میں سمجھوتے کے قابل نہیں ہے۔

افغان عوام کی جہادی جدوجہد کا انحصار غیرملکی افواج کی موجودگی پر ہے۔ جب تک وہ یہاں موجود ہیں، جنگ جاری رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ ظالمانہ امریکی قبضے سے افغان عوام کی کیا ضروریات پوری ہوں گی؟ بلاشبہ جنگ تباہ کن ہے۔ اور تباہی سے آبادی نہیں آئے گی۔ غیرملکی افواج کی موجودگی کا نتیجہ افغانوں نے دیکھا ہے۔ اس وقت افغانستان بدامنی کے لحاظ سے دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ تاریخ کے بدنام اور عوام کی جانب سے مسترد عناصر ملک پر مسلط کیے گئے ہیں۔ آدھے سے زیادہ افغان سخت غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ بیماری اور موسم کی خرابی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ مسلط شدہ کابل انتظامیہ میں بدعنوانی عروج پر پہنچ گئی۔ جس کے باعث اس کے آقا امریکا نے بھی کروڑوں ڈالر کی فراہمی بند کر دی ہے۔ یہ 19 سالہ قبضے کی چند نمایاں جھلیکاں ہیں۔ اگر وہ زیادہ دیر تک یہاں رہیں گے تو یہ فہرست اور زیادہ لمبی ہوگی۔

19 سالوں میں بہت زیادہ اخراجات کے باوجود دنیا کو لاحق خطرات (جو حقیقت میں موجود نہیں) ختم نہیں ہوسکے تو پھر کب ختم ہوں گے؟ کابل انتظامیہ کے حکام قابض افواج کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت کو دہشت گردی اور دنیا کے لیے "خطرہ” قرار دیتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ افغان عوام کی مزاحمت خطرہ نہیں، بلکہ یہ ایک مقدس جدوجہد ہے۔ جو آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جاری ہے۔ ایک دن یہ جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔ کابل انتظامیہ صرف عالمی برادری کو جنگ جاری رکھنے کے لیے راضی کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ جنگ ختم کرنے کی صورت میں نام نہاد خطرات سے دنیا کو متنبہ کرتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ غیرملکی افواج کی موجودگی کابل انتظامیہ کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی موجودگی کے بغیر کابل انتظامیہ (اشرف غنی کے مطابق) چھ ​​ماہ بھی تک نہیں رہ سکتی۔ کابل انتظامیہ کے حکام اپنے ناجائز مفادات کے تحفظ اور بوسیدہ نظام کی بقا کے لیے حملہ آوروں کو قبضہ جاری رکھنے پر راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان ضمیر فروش عناصر کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکا اب اس پوزیشن میں ہے کہ جس کے لیے آپ کے نظام کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی سرمایہ کاری میں دل چسپی ہے۔ اس نے اپنے مفادات کے لیے یہاں سے راہ فرار اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ آج نہیں تو کل یہاں سے فوجی انخلا کرے گا۔ ان شاء اللہ

بشکریہ الامارہ ویب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے