جب ہمیں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ بین الاقوامی برادری شامی مہاجرین کے معاملے میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گی تو تب ہم نے شام کے شمال کے لئے ایک پلان تیار کیا ہے: صدر رجب طیب ایردوان

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے تمام ممالک سے شام کے معاملے میں ترکی  کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کی ہے۔

امریکی روزنامے وال اسٹریٹ جنرل کے لئے رقم کردہ کالم میں صدر ایردوان نے شام میں دریائے فرات کے مشرق میں علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں YPG/PKK اور داعش کے خلاف جاری آپریشن چشمہ امن کا جائزہ لیا ہے۔

"جب سب چُپ بیٹھے ہیں ترکی قدم اٹھا رہا ہے” کے عنوان سے رقم کردہ کالم میں انہوں نے کہا ہے کہ2011 میں شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے لے کر اب تک کسی بھی ملک نے درپیش بحران کی تکلیف کو ترکی جتنے واضح انداز میں محسوس نہیں کیا۔

صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ترکی نے 3.6 ملین شامیوں کو قبول کیا ہے اور مہاجرین کی تعلیم، صحت اور رہائش کے لئے 40 بلین  ڈالر مصارف کئے ہیں۔  اس معاملے میں بین الاقوامی برادری سے ہمیں بہت کم تعاون ملا ہے  ہم نے اپنی فطری مہمان نوازی کے تحت لاکھوں جنگی متاثرین  کا بوجھ تن تنہا اٹھا رکھا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ترکی جو کچھ کر سکتا تھا اس نے کر دیا ہے اور اب ایک سرحد تک پہنچ گیا ہے۔ ہم نے متعدد دفعہ وارننگ دی ہے کہ بین الاقوامی مالی مدد کے بغیر ہم مہاجرین کو مغرب جانے سے نہیں روکیں گے۔ ذمہ داریوں سے جان چھڑانے والی حکومتوں نے بے نتیجہ رہنے والی ہماری تمام تر تنبیہات کو حقیقت کے بیان کے طور پر نہیں بلکہ دھمکی کی شکل میں پیش کیا ہے۔ جب ہمیں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ بین الاقوامی برادری اس معاملے میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گی تو تب ہم نے شام کے شمال کے لئے ایک پلان تیار کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا مقصد YPG/PKK اور داعش کے خلاف جدوجہد کرنا ہے۔ شامی کردوں کو دہشت گرد تنظیم PKK  کے ساتھ ایک ہی پلڑے میں رکھے جانے پر ہمیں اعتراض ہے۔

آپریشن کی مخالفت کرنے پر عرب لیگ  کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ترکی کی شامی مہاجرین کو ان کے وطن سے ملانے کی کوششوں پر اس قدر بے اطمینان ہونے والے ان ملکوں نے خود کتنے جنگی متاثرین کے لئے اپنے دروازے کھولے ہیں؟شام میں خانہ جنگی کے اختتام کے لئے کیا کردار ادا کیا ہے؟ خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے کیا سیاسی اقدامات کئے ہیں؟

صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ شامی بحران پورے علاقے کو عدم استحکام کے گرداب میں دھکیل رہا ہے اور بین الاقوامی برادری نے علاقے کو اس گرداب سے بچانے کا موقع گنوا دیا ہے۔ بہت سے ممالک  اس بحران کے غیر منّظم ہجرت اور بڑھتے ہوئے دہشتگردی کے حملوں جیسے مابعد اثرات کا تجربہ کر چکے ہیں۔ چشمہ امن آپریشن بین الاقوامی برادری کو ایک دفعہ پھر ،شام کی اس پراکسی وار کو ختم کروانے  اور علاقے میں امن و استحکام کی تعمیر نو کرنے کے لئے، ترکی کے ساتھ تعاون کا  موقع فراہم کر رہا ہے۔ یورپی یونین اور پوری دنیا کو ترکی کی کاوشوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے