افغان طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں عاصم عمر کی ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’اس میں کوئی صداقت نہیں ہے‘۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ’اس کاروائی میں عام شہری ہلاک ہوئے تھے‘

جبکہ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس (نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی) نے منگل کی شام شدت پسند تنظیم القاعدہ کی جنوبی ایشیا کے لیے شاخ ’اے کیو آئی ایس‘ کے سربراہ عاصم عمر کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھیں ستمبر میں چھ ساتھیوں سمیت افغانستان کے صوبہ ہلمند کے ضلع موسیٰ کلا میں ایک فضائی کارروائی کے دوران مارا گیا تھا۔

افغان انٹیلیجنس ایجنسی کے مطابق 46 سالہ عاصم عمر کو 23 ستمبر کو امریکی اور افغان سکیورٹی فورسز نے ایک مشترکہ کارروائی میں ہلاک کیا گیا تھا۔

اگرچہ افغان انٹیلیجنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ عاصم عمر پاکستانی تھے، لیکن بعض رپورٹس کے مطابق وہ انڈیا میں پیدا ہوئے تھے اور نوے کی دہائی کے آخر میں پاکستان آئے تھے۔

افغان انٹیلیجنس ایجنسی کے جاری کردہ بیان کے مطابق ’پاکستانی شہری عمر دیگر چھ ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر پاکستانی تھے، جن میں عاصم عمر اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے درمیان رابطہ کار ریحان بھی شامل تھے۔ یہ سب موسیٰ کلا میں طالبان کے ایک کمپاؤنڈ میں موجود تھے۔‘

افغان انٹیلیجنس ایجنسی نے اس سے پہلے دسمبر 2017 میں عاصم عمر کے نائب عمر خطاب کو 27 ساتھیوں سمیت ہلاک کرنے کی تصدیق کی تھی۔

[images cols=”three”]
[image link=”#” image=”3437″]
[image link=”#” image=”3438″]
[image link=”#” image=”3439″]
[/images]

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے