ترکی کی جانب سے شام میں زمینی اور فضائی حملوں کا عندیہ دینے کے بعد امریکا نے ملک کے شمالی علاقے سے اپنی فوج واپس بلانے کا اعلان کردیا۔خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق وائٹ ہاس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ترکی جلد شام کے شمالی علاقے میں طویل المدتی آپریشن کا آغاز کرے گا، امریکا کی مسلح افواج آپریشن کی حمایت نہیں کریں گی نہ ہی اس کا حصہ بنیں گی اور داعش کو اس علاقے میں شکست دینے کے بعد اب مزید یہاں نہیں رہیں گی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ترک ہم منصب رجب طیب اردوان کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو کے بعد جاری بیان میں جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی اقوام پر داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے شہریوں کی جلا وطنی ختم نہ کرنے پر تنقید کی جو اس وقت شمالی شام میں زیرحراست ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ 2 برس میں امریکا کی جانب سے داعش کی زمینی فورسز کو شکست دینے کے دوران پکڑے گئے تمام داعش جنگجوں کی ذمہ داری اب ترکی پر ہوگی۔علاوہ ازیں ترک صدر کے ترجمان نے کہا کہ شمالی شام میں طے شدہ سیف زون کا مقصد سرحد پار دہشت گرد عوامل کا خاتمہ اور شامی علاقائی سالمیت کے طریقہ کے تحت شامی پناہ گزینوں کی واپسی ہے۔ترک صدارتی دفتر کے مطابق گزشتہ روز رجب طیب اردوان اور ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران شام کے شمالی علاقے میں سیف زون کے قیام سے متعلق آئندہ ماہ واشنگٹن میں ملاقات پر اتفاق کیا۔ساتھ ہی ترک صدر نے ترک بارڈر پر اگست میں بفر زون کے قیام سے متعلق ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد میں امریکی فوج اور سیکیورٹی بیوروکریسی کی ناکامی پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔اس سے ایک روز قبل رجب طیب اردوان نے خبردار کیا تھا کہ انقرہ جلد سے جلد آج یا کل میں سرحد پار کارروائی کا آغاز کرسکتا ہے۔خیال رہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے دریائے فرات کے مشرقی حصے میں ‘زمینی اور فضائی حملوں’ کا عندیہ دیا تھا۔واضح رہے کہ امریکا اور ترکی نے مذکورہ حصے کو ‘سیف زون’ (محفوظ علاقہ) قرار دیا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے