آج کی بات
قبضہ اور جنگ بندی
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے امارت اسلامیہ کے ساتھ بات چیت اس لیے منسوخ کی ہے، کیوں کہ وہ جنگ بندی سے انکار کر رہی تھی۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ مذاکرات بہتر بنانے کے لیے اور بھی بہتر طریقے ہیں۔
واقعی جارحیت پسندوں کے نزدیک سیاسی حل سے جنگ اور سربریت کا راستہ بہتر انتخاب ہے۔ افغانستان میں جاری جنگ امریکا نے شروع کی تھی۔ امریکا نے یہ جنگ جاری رکھنے کے لیے کسی ظلم، سربریت اور فریب سے گریز نہیں کیا ہے۔ امریکا واقعی جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے تو ہماری دھرتی سے اپنی تمام فوج واپس بلائے۔ افغان عوام جنگ کے لیے امریکا نہیں گئے۔ قابض امریکی فوج نے افغانستان پر چڑھائی کر کے اسے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ لاکھوں افغان شہریوں کو شہید، زخمی اور قید کر رکھا ہے۔ وہ اب بھی ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
امارت اسلامیہ کے زیرقیادت جاری جہادی مشن امریکی یلغار کا ردعمل ہے۔ جب امریکا نے افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا، یہاں مثالی امن قائم تھا۔ مرکزی حکومت اور انصاف موجود تھا۔ امریکی جارحیت نے ایک طرف تمام اقدار پر حملہ کیا اور دوسری طرف جنگ کی آگ لگا دی۔ جب تک جارحیت ختم نہیں ہوگی، جنگ ختم نہیں ہوگی۔ حملہ آوروں کی موجودگی میں ہم شرعاً اور فطرتاً مکلف ہیں کہ حملہ آوروں کے خلاف جہاد جاری رکھیں۔ حملہ آوروں کو اپنی دھرتی سے نکال باہر کریں۔
ناجائز قبضے کے خاتمے کے معاہدے اور ضمانت کے بغیر جنگ بندی کا اعلان کرنا نہ صرف افغان عوام کے لیے سکون اور خوش حالی لانے کا باعث نہیں ہوگا، بلکہ جارحیت کو مزید مستحکم کرنے کا باعث ہوگا۔ بدقسمتی سے احمق دشمن 18 برس جنگ اور وسیع پیمانے پر جانی اور مالی نقصان سہنے کے بعد بھی بڑی سلطنتوں کے قبرستان میں کامیابی کا خواب دیکھ رہا ہے۔
امارت اسلامیہ نے بار بار کہا ہے کہ جاری جہاد کا بنیادی ہدف جارحیت کا خاتمہ اور اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ ہماری ملی اور شرعی جدوجہد تب تک جاری رہے گی، جب تک یہ ہدف حاصل نہیں ہو جاتا۔
ان شاء اللہ العزیز

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے