مقبوضہ کشمیر میں کرفیو برقرار ہے، لاک ڈاؤن اور کمیونیکیشن کی سہولیات تاحال ناپید ہیں، مودی سرکار نے کشمیر میں بھارتیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے، قابض فورسز نے ڈر کے مارے حریت رہنما سیّد علی گیلانی کی پریس کانفرنس کو روک دیا۔ وادی میں معمول کی زندگی طوفان سے پہلے کی خاموشی قرار دی جا رہی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی قابض انتظامیہ سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے سینئر حریت رہنما سیّد علی گیلانی کی پریس کانفرنس روک دی ہے، گزشتہ ماہ لاک ڈاؤن کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی حریت رہنما نے پریس کانفرنس سے خطاب کرنا تھا۔

گھرمیں نظر بند حریت رہنما سیّد علی گیلانی نے خطوط کے ذریعے صحافیوں کو دعوت نامے بھجوائے تھے، بی بی سی کے صحافی کے مطابق تمام صحافیوں کو سیّدعلی گیلانی کی رہائشگاہ پر مدعو کیا گیا تھا۔ جب صحافی حریت رہنما کی رہائش گاہ پہنچے تو پولیس نے کہا کہ سب یہاں سے جائیں ورنہ دفعہ 144کی خلاف ورزی ہوجائے گی۔

صحافیوں اورپولیس کے درمیان کافی دیر مباحثہ ہوا جسکے بعد سینئر پولیس اہلکاروں کو وہاں بلا لیا گیا، سینئر پولیس اہلکاروں نے صحافیوں کو کہا کہ پریس کانفرنس کیلئے ضلع مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے، کافی دیر بحث ومباحثے کے بعد تمام صحافی حریت رہنما سید علی گیلانی کی رہائش گاہ سے چلے گئے۔

اُدھر خبر رساں ادارے نے بھارتی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں امن کے دعوؤں کا پول کھول دیا ہے، بی بی سی کے ہندوستان میں نمائندہ خصوصی نے حقیقت بے نقاب کی۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے صحافی کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات کو معمول کے مطابق کہنا ایک فریب ہے، تشدد کے خوف سے والدین اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج رہے ہیں، بچے گھروں میں بند یا ٹی وی دیکھتے ہیں یا والدین سے بھارت کی ناانصافیوں کے قصے سنتے ہیں۔

خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ دہلی میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیری تشدد سے تھک چکے ہیں اور بالآخر ملازمت اور ترقی کے وعدوں کو تسلیم کر لیں گے لیکن کشمیر میں اس خیال سے کوئی اتفاق نہیں رکھتا۔

نام مخفی رکھنے کی شرط پر مقامی پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ بھارت پر کشمیریوں کو کوئی اعتماد نہیں رہا، لوگ غصے میں ہیں، تذلیل محسوس کر رہے ہیں اور بے بس ہیں، ہمیں نہیں معلوم مزاحمت کہاں سے اٹھے گی۔

اُدھر وادی میں بھارتی فوج کے مظالم اور خوفناک صورتحال بے نقاب ہونے کا خوف پر مودی سرکارنے کشمیر میں بھارتیوں کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق حکمران جماعت نے سابق بی جے پی رہنما یشونت سنہا، ائیرمارشل (ر) کپیل کاک اور سماجی رہنما سشوبھا بھیو کو سرینگر سے واپس نئی دلی بھیج دیا۔

کےایم ایس کے مطابق اس سے قبل گزشتہ ماہ 24اگست کوراہول گاندھی کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کے وفد کو سرینگرائیر پورٹ سے واپس بھجوادیا گیا تھا۔

بی بی سی کے مطابق سرینگر کا علاقہ صورہ مزاحمت کا مرکز بن چکا ہے وہاں جوانوں نے خندقیں کھود ی ہیں اور داخلے کے تینوں راستوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے روک دیا گیا ہے، بھارت سرکار تنگ گلیوں اور گھروں کی نگرانی ڈرونز کے ذریعہ کرتی ہے۔ رات کو صورہ کے جوان کیل لگے ڈنڈوں کے ذریعہ پہرہ دیتے ہیں۔

ایک کشمیری نوجوان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ جیل میں رہ رہے ہیں لیکن صورہ میں بھارتی فورسز کو داخل نہیں ہونے دیں گے، جنوبی کشمیری میں ایک فرد بھی بھارتی اقدام کی حمایت کرتے نہیں دیکھا، احتجاج کا سونامی آنے والا ہے، لوگوں کے دل میں لاوا جل رہا ہے۔

بی بی سی کے مطابق 2011 میں امریکی ادارے بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 54 فیصد افراد آزادی کے خواہش مند تھے۔

جنریشن آف ریج ان کشمیر کے مصنف ڈیوڈ دیوداس کا کہنا تھا کہ تین سال قبل برہان وانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے احتجاج میں عوام کے غصے نے نئی تحریک کو ہوا دی۔

دوسری طرف مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم کو 45 روز گزر گئے ہیں، وادی میں دکانیں، کاروبار، تعلیمی ادارے سنسان پڑے ہیں، گھروں میں قید کشمیری ضروریات زندگی کو ترس گئے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیریوں کی زندگی بدتر ہونے لگی۔ گھروں میں محصور لوگ کھانے پینے کی اشیاء کو ترس گئے۔ دکانیں، کاروبار، تعلیمی ادارے تاحال بند ہیں، چپے چپے پر بھارتی فوج تعینات ہیں۔ کمیونی کیشن بلیک آؤٹ کی وجہ سے اصل صورتحال جاننا مشکل بن گیا۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق صرف شوپیاں کے علاقے سے 2 ہزار کے قریب نوجوانوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ 5 اگست سے تمام حریت رہنما گھروں اور جیلوں میں بند ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے