افغانستان پر امریکی حملے اور ہماری قوم پر مسلط کردہ جنگ کے اٹھارہ سال مکمل ہو گئے، پچھلے اٹھارہ سالوں میں تین امریکی صدور (بش ، اوباما اور ٹرمپ) جنگی ہتھکنڈوں سے تجربہ کر چکے ہیں۔ جرنیلوں کو تبدیل کرنے ، فوج کی تعداد میں کمی و اضافہ، انٹلیجنس اور پروپیگنڈے کی حکمت عملی ، سیاسی اور مذہبی دباؤ اور دیگر مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کیا لیکن ان تمام کوششوں کا نتیجہ صفر ہے ۔ افغان عوام کی جہادی مزاحمت میں شدت آچکی ہے ، قابض فوج کی ہلاکتوں اور مالی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے اور سیاسی اعتبار متاثر ہوا ہے ۔

جب ایک فارمولہ مسلسل اٹھارہ برس تک غلط نتیجہ دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ غلط ہے اور اس کی بجائے کوئی دوسرا فارمولہ استعمال کیا جانا چاہئے۔ امریکہ کی سیاسی قیادت حال ہی میں اس نکتے کی طرف راغب ہوئی تھی اور ٹرمپ نے اپنی فوجی حکمت عملی کی ناکامی کے بعد مذاکرات اور معقولیت کا انتخاب کیا۔ امارت اسلامیہ ، جس نے ہمیشہ اس معاملے کے پرامن حل پر زور دیا ہے اور یہاں تک کہ امریکی حملے سے پہلے بھی امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا تھا ، سچے جذبے کے ساتھ مذاکرات کے لئے آگے بڑھی اور مذاکرات کے لئے ایک مناسب اور بااعتماد وفد مقرر کیا اورپچھلے نو مہینوں میں اس عمل کو بہت اچھے انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔

نو ماہ کے دوران امن مذاکرات کے نو دور مکمل کرنے کے بعد جب معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دی گئی ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے مذاکرات کے عمل کو روک دیا ۔

چونکہ امارت اسلامیہ نے جنگ کے خاتمے کے لئے شروع کئے گئے مذاکرات کی کامیابی کے لئے اپنی تمام تر توانائوں کو صرف کیا اور آخر تک اس عمل کو نہایت سنجیدگی اور مخلصانہ ارادے سے جاری رکھا ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امارت اسلامیہ امن کے لئے پرعزم ہے۔ اس کے برعکس مدمقابل فریق جس طرح جنگ شروع کرنے اور جارحیت کا ذمہ دار ہے اسی طرح اس جنگ اور خریریزی کا بازار گرم رکھنے کی ذمہ داری بھی امریکی فریق بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد ہوتی ہے ۔

وہ تنظیمیں ، افراد اور میڈیا جو جنگ کو ایک الزامی موضوع کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، انسانیت دوستی کے نعرے لگاتے ہیں اور ہمیشہ جنگ کے تسلسل اور شہری ہلاکتوں کی ذمہ داری امارت اسلامیہ پر عائد کرتے ہیں۔ اس کے بعد جنگ کی تمام خرابیوں اور نقصانات کا ذمہ دار امریکی صدر ٹرمپ کو ٹھہرائیں کیونکہ عوام اور دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے کتنی لاپرواہی کے ساتھ افغان اور امریکی عوام کے دلوں میں جنگ کے خاتمے کی امیدوں پر پانی پھر دیا اور امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ پر مہر ثبت کر دیا ۔

امارت اسلامیہ نے اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور سلامتی کے لئے تمام تر کوششیں کی ہیں ، اس نے اپنی بساط کے مطابق مذاکرات کے عمل کو کامیاب بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی لیکن چونکہ مدمقابل نے یکطرفہ طور پر اس عمل کو بلاجواز معطل کر دیا لہذا یہ بات واضح ہے کہ جنگ شروع کرنے جنگ ختم کرنا نہیں چاہتے ہیں لہذا جنگ شروع کرنے کی طرح اس کو دوام دینے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے ۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے