امریکی مذاکرات ٹیم کیساتھ ہمارے مذاکرات مفید رہے اور معاہدہ مکمل ہوچکا ہے، کل تک امریکی مذاکراتی ٹیم پیشرفت سے راضی  اور گفتگو خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی،فریقین معاہدہ کے اعلان اور دستخط کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

معاہدہ پر دستخط اور اعلان کے بعد  ہم نے بین الافغان مذاکرات کی نشست ماہ سمتبر کی23 تاریخ کا پہلا دن مقرر کیا تھا۔

خطے ، دنیا کے ممالک اور عالمی تنظیموں نے بھی اس عمل کی حمایت کی تھی۔

اب چوں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امارت اسلامیہ سے مذاکراتی سلسلے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا، جس سے سب سے زیادہ نقصان امریکا ہی کو پہنچے گا، اس کا اعتماد نقصان دہ،امریکی صلح مخالف مؤقف دنیا کے سامنے مزید واضح،امریکا کی جانی و مالی نقصانات میں اضافہ اور سیاسی تعامل میں اس کے کردار کو متزلزل متعارف کروائے گا۔

مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے امارت اسلامیہ نے دنیا کو یہ ثابت کردی،کہ جنگ اجنبی کی طرف سے ہم پر مسلط کی گئی ہے، اگر جنگ کی جگہ افہام وتفہیم کے طریقے کو اپنایاجائے، تو ہم آخر تک اس کے لیے پابند رہیں گے۔

معاہدہ پر دستخط سے قبل ایک حملے پر ردعمل کا  اظہار کرنا،یہ تو حوصلے اور نہ ہی کسی تجربے کی نشاندہی کرتی ہے،اس حال میں کہ مذکورہ حملے سے کچھ قبل امریکی افواج اوران کے افغان حامیوں نے متعدد حملوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو شہید اور ان کے سرمایہ کو نذرآتش کردیا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے ریاستہائے متحدہ امریکا کے دورے کی دعوت نامہ ہمیں ماہ اگست کے آخر میں ڈاکٹر زلمے خلیل زاد نے دی، ہم نے دورے کو دوحہ میں معاہدے کے دستخط تک مؤخر کردی۔

امارت اسلامیہ کی پالیسی پختہ اور مؤقف غیرمتزلزل ہے، ہم نے 20 برس قبل بھی افہام وتفہیم کی صدا بلند کی تھی،آج بھی وہی مؤقف ہے اور ہمیں یقین ہے کہ امریکی فریق  دوبارہ یہی مؤقف اپنائے گا۔

ہماری 18 سالہ مزاحمت نے امریکا کو ثابت کردی، جب تک ہمارے ملک کا قبضہ مکمل طور پر ختم نہ ہوا ہو اور افغانوں کو اپنی مرضی پر نہ چھوڑا جائے،اس کے علاوہ کسی اور چیز پر ہم راضی نہیں ہوتے،اسی عظیم مقصد کے لیے اپنےموجودہ  جہاد کو جاری رکھیں گے اور آخری فتح پر ہمیں مکمل یقین ہے۔

ان شاءاللہ وما ذلک علی اللہ بعزیز

امارت اسلامیہ افغانستان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے