آج کی بات

گزشتہ روز شام کو دس بجے کے لگ بھگ مجاہدین نے کابل کے انتہائی حساس علاقے "گرین ویلیج” نامی غیرملکی فوج کے ایک محفوظ حفاظتی مرکز کو نشانہ بنایا۔ اس سے قبل بغلان کے دارالحکومت پل خمری اور اس سے ایک روز قبل قندوز شہر پر حملے ہوئے اور قندوز شہر کے تقریبا 80 فیصد علاقے پر مجاہدین نے کنٹرول سنبھال لیا۔ سیکڑوں کٹھ پتلی فوجی ہلاک اور ہزاروں ہلکے اور بھاری ہتھیار غنیمت میں ملے۔

اگرچہ مجاہدین نے حکمت عملی کے تحت ان شہروں پر مکمل کنٹرول قائم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ تاہم وہ محاصرہ اب بھی جاری ہے۔ اسی اثناء میں مجاہدین نے صوبہ بلخ کے ضلع زارع بھی فتح کیا، جب کہ تخار اور بدخشاں میں بھی درجنوں چوکیاں اور مراکز قبضے میں لے لیے۔

دوسری طرف ہرات کے ضلع کھسان میں 40 فوجیوں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اسی طرح ملک بھر میں کابل انتظامیہ اور قابض فوج پر مجاہدین نے ایسے حملے کیے کہ ظالم فوج کے تمام حربے اور منصوبے تہس نہس ہو گئے۔

اس کے علاوہ گزشتہ روز دارالحکومت کابل میں غیرملکیوں پر اتنا شدید حملہ کیا گیا، جس سے کابل حکام حواس باختہ اور جنونی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ کابل حکام نے حملے کے بعد اس علاقے کو مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا۔ وہاں کسی صحافی کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

کٹھ پتلی حکام نے صبح صرف یہ دعوی دہرایا کہ انہوں نے گرین ولیج میں بہت سے غیرملکیوں کو بچایا اور اس پر فخر کیا۔ گویا انہوں نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ان کے مطابق اس حملے میں عام شہری مارے گئے ہیں۔ گرین ویلیج کے حملے میں درجنوں قابض فوجی ہلاک ہوئے۔ تاہم دشمن نے میڈیا سے سب کچھ چھپا لیا۔ صحافیوں کو جائے وقوعہ تک نہیں جانے دیا گیا۔

افغان عوام ان تمام واقعات سے بخوبی واقف ہیں۔ جو کچھ مجاہدین نے باضابطہ بیان میں ذکر کیا ہے، وہی اصل حقیقت ہے۔ اس کامیاب حملے میں دشمن کو بہت نقصان ہوا۔ چناں چہ اس حملے میں کسی بھی شہری کو براہ راست نشانہ نہیں بنایا گیا۔ کیوں کہ ایسے علاقوں میں عوام ویسے بھی جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بہرکیف! اس کامیاب حملے کا پیغام یہ ہے کہ دشمن کو اب سمجھنا چاہیے کہ طاقت، سربریت، بمباری اور بڑے پیمانے پر قتل عام سے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اب جب کہ دشمن کی کارروائیاں تمام لوگوں پر واضح ہو گئی ہیں، جو کہ صرف اندھے بم برسائے جاتے ہیں۔ خواہ اس کا ٹارگٹ عوام ہو یا مجاہد، اس کے نزدیک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ حملہ آور اور اس کی کٹھ پتلیاں اب بخوبی جانتی ہیں کہ افغانستان کے جغرافیے میں ان کے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لیے وہ بھی بلاامتیاز عوام پر سفاکانہ حملے کرتے اور اونچی اڑان سے ان پر بم برساتے ہیں۔ آدھی رات کو ان کے گھروں کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کرتے ہیں۔ ان کی دولت اور قیمتی اشیاء لوٹ لی جاتی ہیں۔ خواتین، بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

کابل انتظامیہ کی سمجھ داری یہ ہے کہ وہ غیرملکی آقاؤں کے لیے افغان عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کر دے۔ زمینی حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرے کہ ظلم اور تشدد پر مبنی پالیسی سے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ دشمن کو چاہیے وہ انسانیت سوز جرائم سے دست بردار ہو جائے۔ ورنہ وہ اس سے بھی بدتر دن کا شکار ہوگا

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے