مقبوضہ کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر کے نواح میں واقع علاقے صورہ کے مکینوں نے اسے بند کرکے بھارتی سکیورٹی فورسز کا راستہ روک دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کو زمین کا ایک انچ بھی نہیں دیں گے۔

سری نگر کے قریب واقع علاقے کے اکلوتے داخلی راستے کی حفاظت کے لیے نوجوان پتھروں کے ڈھیر اور آگ کے الاؤ کے پاس بیٹھتے ہیں، جو محاصرے میں ہے اور وہ اسے ’کشمیر کا غزہ‘ کہتے ہیں جبکہ مسجد کے لاؤڈ سپیکروں سے آزادی کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔

کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر کے نواح میں واقع علاقے صورہ کے مکینوں نے اسے بند کرکے بھارتی سکیورٹی فورسز کا راستہ روک دیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے کا بھارتی حکومت کا فیصلہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اگست کے آغاز سے علاقے کے لوگوں نے اس کے داخلی راستے پر دھاتی چادروں، درختوں کے تنوں، تیل کی ٹینکیوں اور کنکریٹ کے ستونوں کی مدد سے کمزور سی رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔ بھارتی فوجیوں کو دور رکھنے کے لیے خندقیں کھودی گئیں جبکہ روزانہ کے مظاہرے معمول ہیں۔

مفید نامی صورہ کے مکین اور مقامی رضا کار گارڈ نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’وہ ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی صورہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ہم بھارت کو زمین کا ایک انچ بھی نہیں دیں گے۔ جس طرح غزہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے، ہم پوری طاقت کے ساتھ اپنی مادر وطن کے لیے لڑیں گے۔‘

کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف تین دہائیوں سے مسلح جدوجہد جاری ہے، جس میں ہزاروں افراد جان گنوا چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔

کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے سے پہلے بھارت نے ہزاروں اضافی فوجی شورش کے شکار کشمیر میں بھیجے، جو وہاں پہلے سے موجود پانچ لاکھ فوج کا حصہ بن گئے۔ شورش میں اضافے کے خوف سے علاقے میں سخت ترین پابندیاں عائد کر دی گئیں لیکن اس کے باجود مظاہرے ہوئے جن کی قیادت صورہ کے مڈل کلاس سے نیچے کے طبقے کے لوگوں نے کی۔ نو اگست کو ہونے والے مظاہرے میں 15 ہزار افراد نے حصہ لیا، یہ اب تک کشمیر کا سب سے بڑا مظاہرہ ہے۔

بھارتی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی جبکہ آنسو گیس اور پیلٹ گنیں بھی استعمال کی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق ان واقعات میں دو درجن سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔

صورہ کے علاقے میں جھیل کے قریب دو ہزار سے زیادہ گھر آباد ہیں۔ اس علاقے کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ قریبی علاقوں میں مظاہروں کے لیے معروف مسجد جناب صاحب لوگوں کے جمع ہونے کا مرکزی مقام ہے۔

ہر رات کو لوگ ٹارچیں اٹھائے تنگ گلیوں میں مارچ کرتے ہیں۔دیواروں پر ’کشمیر کی آزادی‘ اور ’بھارت واپس جاؤ‘ کے نعرے لکھے جاتے ہیں۔ صورہ کے علاقے کی دوسری جانب کے مقامی افراد شاہراہ پر پولیس کی نقل وحرکت کے پیغامات ارسال کر دیتے ہیں۔

بھارتی پولیس نے ڈرون طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کم از کم تین بار صورہ میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن نوجوانوں نے پتھراؤ کرکے انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔کچھ لوگوں کے پاس کلہاڑے اور نیزے بھی تھے۔

لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کے حربوں سے باخبر مظاہرین، آنسو گیس اور مرچوں کے سپرے کے بعد چہروں کو نمک ملے پانی سے دھو لیتے ہیں جبکہ پیلٹ گنوں سے بچنے کے لیے سر پر ہیلمٹ اور آنکھوں پر عینکیں پہنی جاتی ہیں۔

علاقے سے باہر نکلنے کی ہمت کرنے پر اب تک تین نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک مقامی خاتون ناہیدہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’وہ ہمارے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔ وہ یقیناً ناکام ہوں گے۔پچھلی بار ہم نے انہیں شکست دے دی تھی حتیٰ کہ یہ صورت حال کئی سال تک جاری رہی۔ہم ہار نہیں مانیں گے۔‘

صورہ میں مظاہروں کے باوجود بھارتی حکام کا اصرار ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد کشمیر کے بڑے حصے میں امن ہے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے