آج کی بات

بشکریہ امارت اسلامیہ افغانستان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر افغانستان کے بارے میں ایسی بات کی ہے، جو ایک صدر نہیں، بلکہ سلیم العقل انسان بھی اس طرح کی بات نہیں کر سکتا۔ امریکا ایک طرف دنیا کو انسانیت اور ہمدردی کا درس دیتا ہے۔ دوسری جانب دنیا کو ایسا پیغام دیتا ہے، جو ہر قسم کی انسانیت سے عاری ہے۔

ظاہری اسباب کے لحاظ سے ایک ایسے ملک کو دھمکی دینا کہ اس کو صفحہِ ہستی سے مٹا سکتا ہوں، اس بات کا ثبوت ہے کہ درحقیقت امریکی حکام کو انسانیت کا احساس ہی نہیں ہے۔ انسانیت کے حوالے سے ان کے تمام دعوے جھوٹے ہیں۔ ٹرمپ کے غیرسنجیدہ اظہارِخیال نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ افغانستان کی تباہی کی نیت سے آئے تھے۔ کٹھ پتلی حکام امریکی جارحیت کے حوالے سے مختلف وضاحتیں پیش کرتے تھے۔ ٹرمپ کی گفتگو نے انہیں جھوٹ ثابت کر دیا۔ کیوں کہ انہوں نے 20 سال میں افغان عوام کو ترقی کا ایک منصوبہ بھی نہیں دیا۔ وہ دن رات افغان عوام کے قتل عام میں مصروف ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ افغان قوم اگرچہ ظاہری اسباب کی وجہ سے کمزور ہے، لیکن روحانی لحاظ سے اتنی طاقت ور ہے کہ بیس امریکا مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ افغان قوم اس ذات پر یقین رکھتی ہے، جس کی قدرت میں اس دنیا کی تباہی اور آبادی کا مکمل اختیار ہے۔ وہ واحد اور لاشریک ذات ہے۔ اس نے انسانی تاریخ میں ٹرمپ سے کئی گنا طاقت ور قوتوں کو بہت کمزور لوگوں کے ہاتھوں شکست دی ہے۔

ٹرمپ جس حقارت کے ساتھ افغانستان کا نام لیتے اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ ‘اگر میں چاہوں تو افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہوں۔’ انہیں معلوم ہونا چاہیے افغان قوم نے گزشتہ صدی میں دو بڑی طاقتوں کو عبرت ناک شسکت دی اور اب امریکا کی باری ہے۔ وہ یہاں سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔

افغان قوم نے کسی پر ظلم کیا ہے اور نہ ہی کرے گی۔ اگر کوئی مغرور دنیا میں پیدا ہوتا ہے اور اس قوم پر جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے تو پھر افغان قوم نے کسی جارحیت پسند کو کبھی نہیں بخشا۔ ٹرمپ کو چاہیے وہ غرور نہ کریں۔ افغانستان صرف ایک نام نہیں، بلکہ یہ تاریخ میں بڑی قوتوں کا قبرستان ثابت ہوا ہے۔

افغان عوام کو یہ خیال نہیں کہ امریکی عوام بھی ٹرمپ کی طرح غیرسنجیدہ اور انسانیت سے دور ہیں۔ شاید بہت کم لوگ ٹرمپ کے جیسی سوچ رکھتے ہیں۔ کوئی معقول انسان اس طرح غیرسنجیدہ گفتگو کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوج نے بڑے فخر کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا کہ یہ جغرافیہ اب ہمیشہ کے لیے ان کا فوجی اڈہ رہے گا۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک کمزور ملک میں عالمی سپرپاور کا خواب چنکا چور ہو سکتا ہے۔ وہ شکست کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔ اگر وہ راہ فرار اختیار نہ کرے تو اسے ضرور ہزیمت اٹھانا پڑے گی۔ اسی لیے اب غیرمتوقع شکست چھپانے کے لیے اس طرح کا ناپسندیدہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے